• news

سول لائنز مسجد پشاور میں گھنائونی دہشتگردی سے سانحۂ اے پی ایس کی یاد تازہ سکیورٹی لیپس پر قابو پانے اور قومی پالیسی کی سمت درست کرنیکی ضرورت ہے

  سفاک دہشت گردوں نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے سے انسانی خون کی ندیاں بہا کر ایک بار پھر ملک کی فضائوں کو گہرے سوگ میں ڈبو دیا۔ دہشت گردی کی اس گھنائونی اور ننگ انسانیت واردات میں پولیس اہلکاروں سمیت ایک سو سے زائد افراد شہید اور 221 کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں سے متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ اس سفاکانہ دہشت گردی پر ہر آنکھ نم اور ہر دل سوز میں ڈوبا ہوا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی اس ارض وطن کی بقاء و سلامتی اور دہشت گردوں‘ انکے سہولت کاروں اور سرپرستوں کے خاتمہ کیلئے دست بہ دعا ہے۔ 
اس گھنائونی واردات پر ملک کی تمام مذہبی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بیک وقت تشویش اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے کامل یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ اس سانحہ نے اے پی ایس پشاور کی دہشت گردی اور کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کیخلاف ہونیوالی دہشت گردی کی یاد بھی تازہ کر دی ہے جن میں سفاک دہشت گردوں نے کمسن بچوں‘ انکے اساتذہ اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کا عملاً اجتماعی قتل عام کیا تھا۔ پیر 30 جنوری کو نماز ظہر کے موقع پر خودکش دھماکہ پشاور کے ریڈزون میں واقع پولیس لائنز کی مسجد میں ہوا‘ خودکش بمبار نمازیوں کی پہلی قطار میں کھڑا تھا جس کے بارے میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ واردات سے دو روز پہلے مسجد میں آیاتھا۔ دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ اس سے مسجد کی چھت منہدم ہوگئی اور درجنوں نمازی ملبے تلے دب گئے۔ دھماکے کے وقت پولیس افسران اور اہلکاروں کے ساتھ پولیس لائنز آنیوالے کئی سو افراد نماز ظہر کی ادائیگی کیلئے مسجد میں موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق امام مسجد صاحبزادہ نورالامین نے جیسے ہی اللہ اکبر کہا تو اسکے ساتھ ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دہشت گردی کی اس واردات میں امام مسجد کے علاوہ انسپکٹر دوران شاہ‘ انسپکٹر ظاہر شاہ‘ لیڈی کانسٹیبل مسماہ رشیدہ‘ اے ایس آئی لیاقت خان اور ایک سو سے زائد دوسرے نمازی شہید ہوئے۔
 وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ اس خودکش دھماکے کیلئے سہولت کاری پولیس لائنز سے ہوئی۔ انکے بقول افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے‘ حملہ آور وہاں ایک دو دن سے ریکی کررہا تھا جس نے موقع پاتے ہی دھماکہ کردیا۔ ہماری سکیورٹی بریچ ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم گزشتہ دور میں دہشت گردوں سے مذاکرات شروع ہونے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردوں نے پولیس کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔ ہمیں آٹھ سال پہلے جیسی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اس امر کی تحقیقات کی جائیگی کہ سکیورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور کیسے مسجد میں داخل ہوا۔ انکے بقول ہمسایہ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز ہمارے خلاف ہیں۔ 
اس امر پر تو اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم دو دہائی قبل افغان سرزمین پر دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر نیٹو فورسز کی معاونت سے شروع کی گئی امریکی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرنے کا ہی خمیازہ اب تک خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہماری جانب سے نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی جس میں ہمارے تین ایئربیسز بھی شامل تھے جہاں سے نیٹو جنگی جہاز اڑان بھر کر افغان دھرتی پر ہر قسم کی بمباری کرتے اس کا تورابورا بناتے رہے۔ چنانچہ ہمارے اس کردار کے ردعمل میں ہی افغان انتہاء پسندوں نے افغان دھرتی پر نیٹو فورسز کی مزاحمت کرتے کرتے پاکستان کا بھی رخ کرلیا اور یہاں ہمارے شمالی علاقہ جات میں محفوظ ٹھکانے بنا کر ملک کے مختلف حصوں میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہمارے سکیورٹی ادارے بطور خاص انکے ہدف پر تھے جبکہ عام شہری اور سیاست دان بھی ان عناصر کے مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھے۔ پھر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو بھی دہشت گردوں کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے سے متعلق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملا جبکہ اس صورتحال میں امریکی کٹھ پتلی افغان صدر کرزئی کو بھی پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر نکالنے کا موقع ملا جن کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیخلاف جاری سازشوں میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک ہماری سرزمین بدترین دہشت گردی کی مسلسل زد میں رہی جس میں سکیورٹی افسران اور اہلکاروں سمیت ہمارے 80 ہزار سے زائد شہری شہادت سے سرفراز ہوئے جبکہ زخمی ہونیوالوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اسکے علاوہ دہشت گردی کے نتیجہ میں ہماری معیشت کو دو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ 
یہ طرفہ تماشا ہے کہ جس امریکہ کی خاطر ہم نے بے بہا جانی اور مالی قربانیاں دیں اور اپنی دھرتی کو غیرمحفوظ بنایا‘ اس نے بھی ہم سے ڈومور کے تقاضوں اور ہماری سرزمین پر فضائی اور زمینی حملوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ڈرون حملوں کی انتہاء کئے رکھی۔ صرف یہی نہیں‘ ٹرمپ کے دور میں کولیشن سپورٹ فنڈ سے ملنے والی ہماری سول اور فوجی مالی معاونت بھی بند کر دی گئی۔ اسکے باوجود پاکستان نے امریکی افواج کی افغانستان سے محفوظ واپسی کیلئے واشنگٹن انتظامیہ کا ہاتھ بٹایا اور اس کیلئے طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کی راہ بھی ہموار کی اور جب افغانستان سے امریکی فوجیوں اور سویلینز کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تو امریکہ نے پاکستان کا شکر گزار ہونے کے بجائے اس پر نئے الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ہمیں ایسا ہی بھگتان کابل کے اقتدار میں واپس آنیوالے طالبان کی جانب سے بھی بھگتنا پڑا۔ 
یہ حقیقت ہے کہ امریکی جنگ میں ہمیں سب سے زیادہ نقصان افغانستان کی جانب سے اٹھانا پڑا ہے جہاں سے کابل حکومت کی سرپرستی میں انتہاء پسند عناصر بھی پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملہ آور ہوتے اور یہاں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہے جبکہ بھارت کو بھی افغان سرحد سے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کا موقع ملتا رہا۔ ہماری سکیورٹی فورسز نے بے شک دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے اور اپنی دھرتی کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود لیپس کے باعث ہی دہشت گردوں کو یہاں اپنے متعینہ اہداف تک پہنچنے اور کھل کھیلنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ دسمبر 2014ء کا سانحہ اے پی ایس پشاور تو ہمارے سکیورٹی لیپس کا منہ بولتا ثبوت تھا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر اپنے دیس کی سلامتی کیلئے قربان ہو گئے۔ دہشت گردی کے اس دورانیہ میں کوئٹہ کی ہزارہ برادری نے بھی کوئی کم قربانیاں نہیں دیں جبکہ ملک کی دھرتی آج بھی ہماری جانب سے امریکی جنگ میں شریک ہونے کا بھگتان بھگت رہی ہے۔ بے شک امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ روز پشاور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم اسکی محض رسمی بیان سے زیادہ کی اہمیت نہیں جبکہ عملاً اس کا ہمارے ساتھ معاملہ اب بھی ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں والا ہی ہے۔ 
اس تناظر میں آج جہاں ہمیں ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘ وہیں ہمیں اپنے علاقائی تعلقات کو مضبوط اور مربوط کرنا ہوگا تاکہ خطے کے ممالک باہم یکسو ہو کر دہشت گردی کے تدارک کی جامع حکمت عملی طے کرسکیں اور پھر اسے عملی جامہ پہنا سکیں۔ اسکے علاوہ ہمارے سکیورٹی اداروں کو اپنی صفوں میں موجود خامیوں اور کمزوریوں پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری ارض وطن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتی سلگتی ہی رہے گی۔ 

ای پیپر-دی نیشن