• news
  • image

اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد

دونوں صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتیں وجود میں آ چکی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کو الیکشن کرانے اور صوبہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ پنجاب میں یہ ذمہ داری محسن نقوی کے سپرد کی گئی ہے جو دو نیوز چینلز کے مالک ہیں۔ خیبرپختونوا میں اعظم خان کا انتخاب سبکدوش ہونیوالی صوبائی حکومت اور اپوزیشن نے باہمی مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد کیا ہے۔ اعظم خان سابق بیوروکریٹ ہیں جبکہ صوبے میں بڑی اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ اْن کے نام پر کسی بھی فریق نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ نا ہی انہیں کسی حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم خیبرپختونخوا کے برعکس پنجاب میں محسن نقوی کی بطور نگران وزیراعلیٰ تعیناتی پر بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمائوں کی جانب سے محسن نقوی کے انتخاب کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سبکدوش ہونے والی پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی نے مشترکہ طور پر نگران وزیراعلیٰ کیلئے دو نام تجویز کیے تھے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے بھی جو دو نام سامنے آئے اْن میں ایک نام احد چیمہ اور دوسرا محسن نقوی کا تھا تاہم اِن دونوں ناموں پر حکومتی جماعت نے اتفاق نہیں کیا۔ اسی طرح جو نام حکومت پنجاب نے پیش کیے، اپوزیشن نے بھی انہیں رد کر دیا۔ یوں رولز کے مطابق نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے تمام نام اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دئیے گئے۔ مگر یہاں بھی کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اس طرح یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔ حتمی اختیار اْس کا تھا کہ وہ ان ناموں میں سے کسی ایک نام کا انتخاب پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کیلئے کرے۔ جیسے ہی حکومتی بینچ اور اپوزیشن کی طرف سے چاروں نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پہنچے انہوں نے ان چاروں ناموں میں سے بالآخر ایک نام کا انتخاب کر لیا، یہ نام تھا محسن نقوی کا۔ جیسے ہی محسن نقوی کا نام سامنے آیا پی ٹی آئی کی جانب سے اْن پر تنقید کے نشتر چلنے لگے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ محسن نقوی کی تعیناتی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ پھر اسکے بعد محسن نقوی پر الزامات اور تنقید کا لامتناہی سلسلہ شرو ع ہو گیا۔
عمران خان کھل کر بولے اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کی صورت میں پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کیلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جو پی ٹی آئی کیلئے کینہ و بغض رکھتا ہے۔ نیز محسن نقوی کے دونوں چینل بھی پی ٹی آئی اور اْن کیخلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ محسن نقوی اپوزیشن کے خاص آدمی ہیں۔ آصف علی زرداری اْن کو اپنا بیٹا کہتے ہیں جبکہ اْنکے ہوتے ہوئے صاف شفاف انتخابات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔تمام تر الزامات اور تنقید کے باوجود محسن نقوی پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدہ پر براجمان ہو گئے ہیں۔ انہوں نے گورنر ہائوس میں حلف اٹھایا جس کے بعد اْن کی گیارہ رکنی کابینہ بھی حلف اٹھا چکی ہے۔ الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے جبکہ نگران حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ الیکشن کیلئے پْرامن ماحول مہیا کرے اور لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنائے۔ پنجاب کی نگران حکومت جسکے وزیراعلیٰ پر بہت سے سوالات اٹھ گئے ہیں اور سبکدوش ہونیوالا پی ٹی آئی اور ق لیگی اتحاد محسن نقوی کی تعیناتی پر مطمئن نہیں۔بہتر ہوتا کہ پنجاب میں کسی غیر متنازع شخصیت کا انتخاب بطور نگران وزیراعلیٰ ہو جاتا۔ بظاہر محسن نقوی کے انتخاب میں کوئی قانونی قباحت اورابہام نہیں۔ تاہم پی ٹی آئی نے محسن نقوی کے اس انتخاب کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ریلیف نہ دیا تو محسن نقوی کو برداشت کرنے کے سوا پی ٹی آئی کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہو گا۔
 یہ خبر بھی کئی حلقوں میں زیر گردش ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں  90  روز میں ہونیوالے انتخابات چھ یا سات ماہ کیلئے آگے چلے جائینگے۔ اس التواء کیلئے وفاق میں حکومتی اتحاد سرجوڑ کر بیٹھ گیا ہے۔ اْنکے مابین حالیہ چند دنوں میں اس حوالے سے کئی نشستیں ہو چکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری نے ہفتہ قبل پرائم منسٹر ہائوس میں میاں شہباز شریف کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس ملاقات میں طے پایا کہ دونوں صوبوں میں اپریل میں ہونے و الے الیکشن ملتوی کئے جائیں۔ اس کیلئے آئینی راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس حوالے سے کہا جائیگا کہ وہ ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے نام پر دونوں صوبوں کے الیکشن کو چھ ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔
ملک میں اس وقت جو خراب معاشی اور اقتصادی صورت حال چل رہی ہے۔ میاں شہباز شریف اور اْن کی اتحادی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ ایسے حالات میں اْن کیلئے الیکشن میں جانا کسی طرح بھی درست فیصلہ نہیں ہو گا۔ مہنگائی کے ہاتھوں لوگ حد درجہ پریشان اور بدحال ہیں ایسے میں انہیں ووٹ کون دیگا؟
میاں شہباز شریف اور اْنکے اتحادی سمجھتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ چھ، سات ماہ تک ملک کی معاشی صورتحال کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جائینگے جس کے بعد الیکشن میں جانا اْن کیلئے زیادہ آسان ہو گا۔ آئی ایم ایف کا ایک وفد بھی پاکستان کے دورے پر ہے۔ حکومت پْرامید ہے کہ انہیں آئی ایم ایف کی جانب سے قرصے کی پہلی قسط جاری ہو جائے گی۔ خزانے میں ڈالر آتے ہی ملک کے اقتصادی حالات بہتر ہونا شر وع ہو جائیں گے۔  دیکھتے ہیں آنیوالے مہینوں میں کیا ہوتا ہے اور سیاست کیا گْل کھلاتی ہے۔ نتائج برعکس آنے پر کیا عمران خان دوبارہ سڑکوں پر نہیں ہوں گے؟ ملک کے معاشی حالات جو پہلے ہی بہت دگرگوں ہیں اور بھی زیادہ خراب ہوتے نظر نہیں آئیں گے ۔

سعد اختر

سعد اختر

epaper

ای پیپر-دی نیشن