کتاب میلہ : تجاویز اورتقاضے
اس سال کا کتاب میلہ یکم سے5مارچ تک لاہور کے ایکسپوسینٹر جوہر ٹائون میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ میں نے اس بارے میں ایک کالم باندھا،قارئین نے اس پر وسیع پیمانے پر اپنے ردعمل اور والہانہ جذبات کا اظہار کیا۔کتاب میلے کے ایک منتظم محمد فیصل بڑی حد تک میرے اس کالم کے مندرجات سے مطمئن دکھائی دیئے ۔مگر انہوں نے کہا کہ ہماری ایک سب سے بڑی پریشانی اورمضمرات کا تو آپ نے تفصیل سے ذکر نہیں کیا۔ وہ یہ کہ ایکسپوسنٹر کی انتظامیہ ہم سے ایک کروڑ روپے تک چارج کرتی ہے ،جس کی وجہ سے صرف بڑے ناشر اس میں اسٹالز لگاسکتے ہیں اور چھوٹے ناشر محض للچائی ہوئی نظروں سے اس کتاب میلے کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کتاب کو کاروبار کی بجائے ایک خدمت میںشمارکیا جائے ، ویسے بھی فی زمانہ یہ کاروبار کوئی منفعت بخش کام نہیں رہا۔میں نے پوچھا کہ قارئین نے کتب کی قیمتوں پر سخت اعتراض کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کتاب کی قیمت دیکھ کر لرز جاتا ہے ۔ وہ زیادہ قیمت والی کتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اب سستی کتابوں کی اشاعت کا رواج نہیں رہا۔ ایک زمانے میں سید قاسم محمود نے سستی کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا تھا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے بے حد مقبول بھی ہوا۔مگر پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ کتابیں مہنگی سے مہنگی تر ہوتی گئیں۔
میں نے قارئین کے ردعمل کی روشنی میں محمد فیصل سے پوچھا کہ آپ نے بھارت کے کتاب میلے کی تقلید تو کی ہے ، مگروہاں کتابیں بہت سستی ہیں۔اس پر محمد فیصل نے ایک آہ بھری اور کہنے لگے کہ بھارت کی آبادی سوا ارب سے زیادہ ہے۔ وہاں دس پندرہ ہزار کا ایڈیشن باآسانی فروخت ہوجاتا ہے۔پاکستان کی آبادی بھارت کے مقابلے میں پانچ چھ گنا کم ہے ۔ اس لئے ہم کوئی بھی کتاب پانچ سو سے زیادہ تعداد میں نہیں چھاپ سکتے ، جس کی وجہ سے اس کی لاگت اورقیمت بے حد بڑھ جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پینگوئن بکس لاکھوں کی تعداد میں چھپتی تھیںاور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتی تھیں۔ ان کی قیمت بے حد مناسب رکھی جاتی تھی۔ مگر اب پاکستان میں کتاب کی پروڈکشن مہنگی ہوگئی ہے۔ کاغذ کی قیمت ہر گھنٹے بعد بدلتی ہے اور ڈالر کی طرح اونچی اڑان بھرتی ہے ۔ اس سال پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے جب ٹینڈر وصول کئے تو عام لوگوں نے اس وقت کی لاگت کے مطابق ٹینڈر داخل کئے ،تاہم چند ہی ماہ بعد کاغذ کی مہنگائی کی وجہ سے ہمارے لئے ممکن نہ رہا کہ ہم اپنے ٹینڈر کے مطابق کتابیں سپلائی کرسکتے ، چنانچہ ناشران کو ہڑتال کرنا پڑی اور پھر مذاکرات کے ذریعے نئے ٹینڈر داخل کئے گئے۔
جو لوگ کتاب میلوں میں جاتے رہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گھر سے جو کتاب خریدنے کے ارادے سے نکلتے ہیں ، وہ میلے میں نہیں نکلتی۔ بس زیادہ تر چالو مال پڑا ہوتا ہے ۔ نہ جانے کتابیں لکھنے والے معیار کی طرف توجہ نہیں دیتے یا ناشران معیاری کتب کا حوصلہ نہیں کرپاتے ۔
ہمارے دین کی رو سے کتاب کی اہمیت ایک مسلمہ امر ہے ۔ قرآن پاک کے پہلے پارے کی پہلی آئت میں ہی الکتاب کا ذکر آتا ہے ، ا س لحاظ سے کتاب کی تالیف و اشاعت ایک مقدس پیشہ ہے ۔ اگر ہم اپنی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ بغداد،غرناطہ، قرطبہ اور قاہرہ کی لائبریریوں میں قیمتی علمی کتب کا ایک ذخیرہ بھرا ہوا تھا۔ اگرچہ اس وقت کتاب چھاپنے کے جدید ذرائع میسر نہ تھے، تاہم ان لائبریریوں میں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں اس قدروافر تعداد میں موجود تھیں کہ جب ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ کیا تو اس نے وہاں کی لائبریریوں کو نذرآتش کردیا اور لاکھوں کتب دریائے دجلہ کی نذر کردیں، جس کی وجہ سے دریا کا پانی مہینوں سیاہی مائل رہا۔
غرناطہ اور قرطبہ کے عظیم اسلامی کتب خانے یورپی حملہ آور طاقتیں لوٹ کر لے گئیں اور انہوں نے ان کتب کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا، جس کی وجہ سے یورپ میں جہالت کے اندھیرے دور ہوئے ۔ اور علم و ادب کی کہکشائیں پھوٹیں۔ علامہ اقبالؒ جیسا شاعر بھی اس کیفیت پر نوحہ لکھے بغیر نہ رہ سکے:ـ ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
افسوس! ہم نے اپنے اسلاف کی میراث ضائع کردی اور پسماندگی وجہالت ہمارا مقدر بن گئی۔ میرا پیرس جانے کا اتفاق ہوا ہے، وہاں میں نے حکیم بو علی سینا کے نام سے ایک شاہراہ دیکھی۔ پیرس کا ایک بڑا ہسپتال بھی بو علی سینا کے نام سے موسوم ہے ۔ میں نے فیصل صاحب سے پوچھا کہ آپ لوگ اسلاف کی کتابیں کیوں نہیں چھاپتے ۔ انہوں نے کہاکہ میں نے خود تاریخ ابن طبری ، تاریخ ابن خلدون شائع کی ہے ۔ امام غزالی ؒ کی کتب بھی ناشران شائع کرتے رہتے ہیں ، لیکن یقین مانئے کہ ان کتب کا کوئی خریدار نہیں ملتا۔ اصولی طورپر یہ کتب ملک کی بڑی بڑی لائبریریوں میں جانی چاہئیں۔ لیکن جس ملک میں پورے محکمہ تعلیم کیلئے محض دو تین فیصد رکھا جائے، وہاں لائبریریوں کو ان کتب کی خریداری کیلئے فنڈز کون دے گا۔ چنانچہ یہ کتابیں ہمارے اسٹورز میں گلتی سڑتی ہیں۔ اب یہ تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ علمی کتب کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر کتاب یونیورسٹی ،کالج، سکول کی لائبریریوں کیلئے سرکاری سطح پر خریدی جائے ۔ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ محلہ لائبریریاں قائم کریں۔ ہسپتالوں میں بھی لائبریریاں قائم کی جائیں تاکہ طویل عرصہ کیلئے داخل مریض ان کتب سے استفادہ کرسکیں۔ ضلع کونسلوں، میونسپل کارپوریشنوں اور یونین کونسلوں کی بھی لائبریریاں ہونی چاہئیں۔
کتابوں کو معاشرے میں وسیع سطح پر پھیلایا جائے گا تو لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق بیدار ہوگا۔محمد فیصل اور انکے ساتھی کاشف زبیر، سلیم ملک اور بابرحمید مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ دس پندرہ برسوں سے متواتر کتاب میلہ منعقد کررہے ہیں ۔ جن میں ملکی ناشرین کے علاوہ برطانیہ کے ناشرین بھی اپنے اپنے سٹالز لگاتے ہیں۔یہ لوگ اپنی حد تک کتابوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور کتاب میلے کے ذریعے ان کی کوشش ہے کہ عام آدمی بھی کتاب سے محبت کا ثبوت دے ۔ صاحب استطاعت طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کریںتاکہ ہماری آنیوالی نسلیں انٹرنیٹ اور موبائل کلچر سے نجات پاسکیں اور ملک میں کتاب کلچر کو فروغ حاصل ہوسکے۔ مجھے محمد فیصل کے ساتھ دوستی پر فخر ہے کہ اس نے کتابوںکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔ کتاب کی خوشبو کو معاشرے میں پھیلانے کیلئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے ۔میری خواہش ہے کہ محمد فیصل مجھے اکثروبیشتر ملتے رہیں تاکہ میں ان کے جسم میں رچی بسی تازہ کتابوں کی مہک سے اپنے قلب وجگر اور روح کو معطر رکھ سکوں۔