• news

بدھ، 9  رجب المرجب    1444ھ، یکم فروری   2023ء

پنجاب میں بیورو کریسی کی اکھاڑ پچھاڑ جاری‘ لاہور کے تمام ڈی ایس پی تبدیل۔ 
’’نہ باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘والی حالت اس وقت پنجاب میں بیورو کریسی کی ہے۔ ابھی ایک جگہ کام کرنے کے احکامات ملنے کے بعد بوریا بستر کھولا نہیں ہوتا ہے کہ پھر آرڈر آجاتا کہ آپ تشریف سمیت دوسری جگہ کوچ کریں۔ یوں :
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلے نہ پائے
کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
کے مصداق وہ طوعاً کراہاً منہ بسورتے ہوئے نئے علاقے کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ ایسے دربدری کے حالات میں کوئی بندہ بھلا کیا کام کر سکتا ہے۔ بیوروکریسی کو توخانہ بدوش بنا دیا گیا ہے۔آج یہاں اور کل وہاں‘ مسلسل چکر کی حالت میں تو سر گھوم جاتا ہے۔ ایسے میں بھلا پیر کہاں زمین پر ٹکتے ہیں۔ حکمران کچھ تو ان پر ترس کھائیں۔ مگر جس طرح ہمارے بیورو کریٹ کسی پر ترس نہیں کھاتے‘ عوام الناس کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ لگتا ہے یہ سزا ان کو یہی احساس دلانے کیلئے اوپر والے کی طرف سے مل رہی ہے کہ یہ لوگ بھی انسان بنیں‘ خدا نہ بنیں۔ یک جنبش قلم کاغذ کے ایک ٹکڑے کی بدولت انہیں یہاں سے اٹھا کر وہاں سوکھے پتے کی طرح پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہوتا ہے جو سب سے بڑا حاکم ہے اور زمین کے سارے حاکم مل کر بھی اس کے فیصلوں سے سرتابی نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہتے ہیں انسانوں پر حکومت کرنے والے ان کی گردنوں اور سروں پر سوار ہونے کی بجائے ان کے دلوں میں بسیں تو اوپر والا بھی ان پر رحم کرے گا۔ اب ایک بار پھر پنجاب کے 2 سکٹریز سمیت 57 اعلیٰ افسر اور لاہور کے تمام ڈی ایس پی تبدیل ہونے کی خبر سے پتہ چلتا ہے کہ ہنوز تبادلوں کی لہر جو سونامی بن چکی ہے‘ جاری ہے۔ نجانے کب تک اس کا اثر برقرار رہے گا۔ بہتر تو یہی ہے کہ اب یہ سلسلہ تھم جائے اور اچھے بیورو کریٹس کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
٭٭……٭٭
اے سی سی اے امتحان میں پاکستانی طالبعلم نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے
اے سی سی اے کا امتحان خاصا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اول تو طلبہ اس راہ پرخطر کی طرف آتے ہی نہیں‘ بھلا میٹرک سے بی اے تک بلبل و گل کی کہانیاں اور شاعری  پڑھنے والے حساب کی راہ کیوں اپنائیں جو خشک اوربور ہے۔ نہ طلبہ میں سیکھنے کی خواہش ہوتی ہے نہ اساتذہ میں سکھانے کا شوق۔ یوں جو کام بے شوق و جذبہ کیا جائے اس میں کامیابی کم ہی ملتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکائونٹس کے اس عالمی سطح کے امتحان کا بھی ہے جو او لیول اور اے لیول کی طرح بیرونی یونیورسٹیوں میں لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں وہ بچے جو حساب میں ماہر ہوں‘ وہی اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ایف ایس سی و بی ایس سی کے بعد یہ مشکل ترین مرحلہ شوق سے طے کرتے ہیں۔ 
اس سال پاکستانی طالبعلم حذیفہ جمیل نے اے سی سی اے کے فنانشل رپورٹنگ(F.M)  کے مضمون میں دنیا میں سب سے زیادہ نمبرلیئے اور عالمی ایوارڈ کیلئے نامزد ہوئے ہیں۔ دنیا بھر سے ایک لاکھ سے زیادہ طلبہ و طالبات نے اس امتحان میں شرکت کی جس میں نمایاں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے اور ایوارڈز کیلئے نامزد ہونے پر پاکستانی اپنے اس ہونہار فرزند کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ایسے اور بھی ہزاروں گوہر آبدار ہمارے دامن میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اگر انہیں مناسب پذیرائی ملے‘ ان کی تعلیم و تربیت اچھی طرح ہو تو وہ بھی دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ حذیفہ جمیل کی یہ شاندار کامیابی ہمارے نوجوان طالبعلموں کیلئے مشعل راہ ہے۔
٭٭……٭٭
پاسپورٹ فیس میں اضافے کی افواہوں سے ملک بھر کے دفاتر میں رش لگ گیا
اب کوئی کرے تو کیا کرے‘ یہ ہماری عادت ہے کہ جیسے ہی کوئی اطلاع یا افواہ ملتی ہے کہ فلاں چیز مہنگی ہورہی ہے‘ ہم پاگل ہو جاتے ہیں اور دیوانہ وار یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہمیں اس کی کتنی ضرورت ہے‘ اس کی خریداری کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یوں لگتا ہے گویا یہ آخری موقع ہے جو ملا ہے خرید لو آئندہ ایسا موقع نہیں ملے گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ چیز بازار سے غائب ہو جاتی ہے۔ آخر دکاندار بھی تو ہمارے ہی بھائی ہیں۔ وہ ہماری اس کمزوری کا فائدہ یوں اٹھاتے ہیں۔ چیز مزید مہنگی کر دیتے ہیں یا ذخیرہ اندوزی کرکے آئندہ منافع کمانے کا سوچتے ہیں۔ اب پاسپورٹ ایسی کوئی چیز نہیں مگر اس کی فیس بڑھنے کی افواہ کے ساتھ ہی سارے شہری یوں پاسپورٹ آفسز کی طرف دوڑے گویا ابھی ان سب نے باہر کا سفر کرنا ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے کی افواہ پر تو سمجھ آتا ہے اسکی خریداری بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ذخیرہ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ خریدتے ہیں مگر یہ پاسپورٹ بنانے کا جنون جس طرح پاسپورٹ فیس میں اضافے کی افواہ کے ساتھ سامنے آیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سارے پاکستانی ملک چھوڑ کر باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس لئے فوری طورپر کم فیس میں پاسپورٹ بنوانے نکل کھڑے ہوئے کہ کہیں یہ 3 ہزار کی فیس یکمشت 9 ہزار ہو گئی تو پھر کیا ہوگا۔ اب عوام کریں بھی کیا‘ ہماری حکومتیں جس چیز کا اعلان کرتی ہیں کہ ان کی قیمت نہیں بڑھے گی‘ ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ ماضی گواہ ہے حال پر شرط لگاتے ہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سو اب بھی وہی ہو رہا ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں کی گھبراہٹ بجا ہے۔

٭٭……٭٭
پشاور میں شہریوں سے زخمیوں کیلئے خون دینے کی اپیل
پھولوں کا شہر پشاور ایک بار پھر لہولہان ہو گیا۔ ظالم دہشت گردوں نے ایک بار پھر اس بھرے پرے شہر کو اس کے بیٹوں کے لہو سے نہلا دیا۔ مسجد میں دھماکہ کیا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے۔ اندھی عقیدت و نفرت میں ڈوبے یہ پاکستان کے دشمن جو خود کو ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کا نام دیتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ مسلمان کی جان‘ مال‘ عزت‘ آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ تو پھر یہ مقدس جگہ خداکے گھر میں خودکش دھماکہ کس طرح ان کی شریعت میں جائز ہو گیا۔ 100 سے زیادہ نمازی شہید ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ 2 سو سے زیادہ زخمی حالت میں ہسپتالوں میں داخل ہیں جنہیں علاج معالجے کے علاوہ خون کی اشد ضرورت ہے مگر یہ کیا ہو رہا ہے۔ میڈیا اور انتظامیہ بار بار شہریوں سے خون دینے کی اپیلیں نشر کر رہا ہے۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے۔ لاکھوں کی آبادی کا یہ شہر تو بہادروں‘ جی داروں کا مرکز ہے۔ یہاں کے لوگ تو وقت پڑنے پر دوسروں کیلئے اپنی جان و مال تک قربان کر دیتے ہیں۔ تو پھر یہ کیوں ہو رہا ہے کہ عوام سے بار بار خون دینے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ کیا پشاور کے لوگ شہر چھوڑ گئے ہیں۔ کیا وہاں اجنبی اور دوسرے لوگ آباد ہو گئے ہیں کہ یہ نوبت آگئی ورنہ حادثے کی خبر سن کر تو ہزاروں طلبہ اور نوجوان ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ یہ پشاور اور خیبر پی کے کے بہادر جوانوں کی عادت ہے۔ ان کی تو غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ کوئی مصیبت میںہو اور وہ اسکی مدد نہ کریں۔ پشاور سانحہ میں زخمی ہونیوالوں کو او نیگٹو خون کی اشد ضرورت ہے۔ امید ہے اب تک ہزاروں نہ سہی‘ سینکڑوں صاحب دل نوجوان خون عطیہ کر چکے ہونگے۔ جس نے کسی ایک کی جان بچائی‘ اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ یہ پیغام ہمارے نوجوانوں کو یادرکھنا چاہئے۔ انہیں اپیل سے پہلے ہی ہسپتالوں کا رخ کرنا چاہئے تاکہ زخمی افراد کی جان بچائی جا سکے۔

ای پیپر-دی نیشن