دعوت وتربیت
حضرت ابوتمیمہ رضی اللہ عنہ ، اپنی قوم کے ایک فرد کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اورآپ سے استفسار کیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے ارشادفرمایا ، ہاں ! اس نے پوچھا : آپ کس ہستی کو پکارتے ہیں، ارشادہوا، اللہ وحدہٗ لاشریک کو، جس کا وصف یہ کہ اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے اورتم اس کو آواز دو تو وہ تمہارے نقصان کو رفع کردے گا، اورجب تم پر قحط سالی مسلط ہوجائے اورتم اس کو پکارو تو وہ تمہارے لیے گلہ اگادیگا اورجب تم کسی لق ودق صحرا میں ہو اورتمہاری سواری بھاگ جائے اورتم اس سے التجاء کروتو وہ تمہاری سواری تمہیں واپس کردے ، یہ گفتگو سن کر وہ شخص مسلمان ہوگیااورعرض کی کہ یارسول اللہ مجھے کچھ وصیت فرمائیے ، حضور ہادی عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کسی چیز کو کبھی گالی نہ دینا ۔وہ صحابی فرمایا کرتے ہیں کہ آقا ء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصیت فرمانے کے بعد میںنے آج تک کبھی کسی اونٹ یا بکری کو بھی گالی نہیں دی۔(مسند امام احمدبن حنبل)
بشیر بن خصاصیہ ؓبیان فرماتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ ﷺکی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوا ، آپ نے مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ، آپ نے مجھ سے پوچھا ، تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا نذیر، آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج سے تمہارا نام بشیر ہے ، آپ نے مجھے صفہ کے چبوترہ پر ٹھہرادیا، آپ کا معمولِ مبارک یہ تھا ، جب آپکے پاس کوئی ہدیہ آتا تو اسے خود بھی استعمال فرماتے اورہمیں بھی اس میں شریک کرتے اورجب صدقہ آتا وہ تمام ہمیں عنایت فرمادیتے ، ایک رات آپ اپنے کاشانہء اقدس سے باہرنکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا،آپ جنت البقیع میں تشریف لے گئے اوروہاں جاکر یہ کلمات ادافرمائے، السلام علیکم دارقومِ مومنین وانابکم لاحقون وانا للہ وانا الیہ راجعون اور ارشادفرمایا تم لوگوںنے بہت بڑی خیر حاصل کرلی اوربہت بڑے فتنہ وشر سے بچ کر آگے نکل گئے، پھر آپ میری جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا :یہ کون ہے؟ میںنے عرض کی ، بشیر! آپ نے فرمایا !اچھا تو تم عمدہ نسل کے گھوڑوں کو کثرت سے پالنے والے قبیلہ ربیعہ کے فرد ہو، جو (ازرہِ تکبر)یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اپنے باسیوں سمیت الٹ جاتی ، کیا تم اس نعمت پر راضی نہیں ہو کہ اس قبیلہ سے تعلق کے باوجود اللہ کریم نے تمہارے، قلب وسمع اوربصارت کو اسلام کی طرف پھیر دیا، میںنے عرض کی، یا رسول اللہ ! میںہمہ تن راضی ہوں، آپ نے فرمایا : یہاں کیسے آنا ہوا میںنے عرض کی مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ آپ کو راستے میں کوئی گزندنہ پہنچ جائے یا زمین کاکوئی زہریلا جانور آپکو کاٹ نہ لے، یعنی آپ کی خدمت وحفاظت کی نیت سے۔(ابن عساکر، بیہقی ، طبرانی)