• news

کور کمانڈرز کانفرنس اور وزیراعظم کی تمام سیاسی قوتوں  سے دہشت گردوں کیخلاف متحد ہونے کی اپیل

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے فوج کے تمام کمانڈروں کو ہدایت کی ہے کہ خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ مل کر پائیدار امن کے حصول تک دہشت گردوں کیخلاف کارروائی پر توجہ مرکوز رکھیں۔ آرمی چیف نے منگل کے روز 255ویں کورکمانڈرز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سانحۂ پشاور جیسی غیراخلاقی اور بزدلانہ کارروائیاں قوم کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں کامیابی کیلئے ہمارے عزم کو پھر سے تقویت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم پائیدار امن حاصل نہیں کرلیتے‘ انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق کورکمانڈرز کانفرنس کے شرکاء کو موجودہ ابھرتے ہوئے خطرات‘ بھارت کے غیرقانونی طور پر زیرتسلط جموں و کشمیر کی صورتحال اور ملک بھر میں دہشت گردوں اور انکے حامیوں کے مابین گٹھ جوڑ کو توڑنے کیلئے فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے جاری انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں کئے جانیوالے اپریشنز کے بارے میں مفصل آگاہ کیا گیا۔ کورکمانڈرز فورم نے پشاور پولیس لائنز دھماکے کے شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔ 
دو روز قبل پولیس لائنز مسجد پشاور میں سکیورٹی لیپس کے باعث ہونیوالی دہشت گردی کی سفاکانہ واردات پر جہاں پوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی ہے وہیں ہمارے سکیورٹی اداروں میں حفاظتی اقدامات کے حوالے سے موجود خامیوں کا بھی سوال اٹھ رہا ہے۔ اس حوالے سے وزیردفاع خواجہ محمد آصف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ پولیس لائنز ایریا پشاور میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں سے اس امر کی نشاندہی ہوئی ہے کہ خودکش بمبار کی خودکش دھماکے سے دو روز قبل تک کی پولیس لائنز مسجد اور اس سے ملحقہ ایریا میں نقل و حرکت کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ یہ اس امر کا ہی ثبوت ہے کہ اس وحشی دہشت گرد کو پولیس لائنز پشاور کے حساس ایریا میں سکیورٹی لیپس کے باعث ہی آسان رسائی ہوئی جو نہ صرف اس ایریا میں دھماکہ خیز مواد سمیت داخل ہوا بلکہ پولیس لائن مسجد کی ریکی بھی کرتا رہا۔ اس حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کو مسجد میں خودکش دھماکے کیلئے پولیس لائنز سے ہی سہولت کاری حاصل ہوئی ہے جبکہ اس سانحہ کے بارے میں وزیراعظم شہبازشریف کو پیش کی گئی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی اس خودکش حملہ کو سکیورٹی غفلت قرار دیا گیا ہے۔ اس سانحہ کی مزید تحقیقات کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے تاہم اس سانحہ کی بھینٹ چڑھنے والوں کے لواحقین کے دلوں میں یہ خلش نکل نہیںپائے گی کہ علاقے کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی غفلت کے نتیجہ میں انکے پیاروں کی جانیں چلی گئیں۔ 
اس سانحہ میں شہید ہونیوالوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 97 پولیس اہلکار شامل ہیں جبکہ 221 زخمیوں میں بھی پولیس اہلکاروں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ گویا شہادتیں پانے اور زخمی ہونیوالے پولیس کے افسران اور اہلکار اپنے ہی ساتھیوں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس المناک سانحہ پر اہالیان وطن کی آنکھیں ہی اشک بار نہیں ہوئیں بلکہ ملک سے باہر دنیا بھر سے اس سانحہ پر دکھ‘ افسوس اور تشویش کا اظہار سامنے آیا ہے۔ ماسوائے بھارت اور افغانستان کے، دنیا بھر کی قیادتوں نے اس سانحہ پر پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور علاقائی امن کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز کی قربانیوں سے لبریز جدوجہد پر انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا تاہم ہمارے لئے یہ ضرور لمحۂ فکریہ ہے کہ افغانستان سے امریکی نیٹو افواج کے انخلاء اور کابل حکومت میں طالبان کی واپسی کے باوجود ہم گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے بدستور دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں جس کے منفی اثرات ملک کی معیشت اور شہریوں کی زندگیوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ملک کے عوام ابھی تک خوف و وحشت کی اس فضا کا سامنا کر رہے ہیں کہ گھر کے اندر اور گھر کے باہر نہ جانے انہیں کب اور کون سی واردات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ بے شک موت تو ایک اٹل حقیقت ہے جس کا ہر ذی روح کیلئے وقت بھی متعین ہے۔ کتابِ ہدایت قرآن مجید میں بھی ذات باری تعالیٰ نے واضح طور پر باور کرادیا ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ مگر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری تو ریاست نے بہرصورت ادا کرنی ہے تاکہ وہ بلاخوف و خطر اپنے معمولات زندگی جاری و ساری رکھ سکیں۔ 
اسکے برعکس ہمارے وطن عزیز پر تو کوئی آسیب کا سایہ پڑا ہوا نظر آتا ہے جس میں ہر شخص عدم تحفظ اور خوف و ہراس کی کیفیت میں ہے۔ بے شک ملک میں امن و امان کی ذمہ داری بھی ریاستی اتھارٹی ہونے کے ناطے حکومتی‘ انتظامی مشینری پر عائد ہوتی ہے جس کیلئے ملک کے سکیورٹی اداروں کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کیلئے ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام بھی ازحد ضروری ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک دوسرے کی متحارب سیاسی جماعتوں کے مابین فروغ پانے والے بلیم گیم اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کلچر نے کبھی سیاسی استحکام کی نوبت ہی نہیں آنے دی چنانچہ ہماری سکیورٹی فورسز کی توجہ بھی بٹی رہتی ہے جنہیں سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر پیدا ہونیوالے کسی انتشار و خلفشار پر بھی قابو پانے کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک میں تسلسل کے ساتھ جاری دہشت گردی کے تدارک کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز آج بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں جبکہ ہماری حکومتوں کی قومی پالیسیوں میں کسی نہ کسی سطح پر موجود جھول کے نتیجہ میں ملک میں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہی رہتی ہے۔ گزشتہ کم و بیش پانچ دہائیوں میں افغان مجاہدین اور افغان طالبان کے حوالے سے ہماری قومی پالیسی کی اب تک کوئی واضح سمت ہی متعین نہیں ہو پائی جبکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت ہی نہیں‘ ہمارے برادر پڑوسی ملک افغانستان کی جانب سے بھی ہمیں کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور ہماری سرزمین میں ہونیوالی دہشت گردی کا بھارت اور افغانستان ہی اصل روٹ کاز ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکی مفادات کی جنگ لڑتے ہوئے بھی ہمیں نقصانات اٹھانا پڑے کیونکہ اسکے ردعمل میں ہماری دھرتی بھارت اور افغانستان کے پالتو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنی۔ چنانچہ ہم اسی تناظر میں سانحہ اے پی ایس پشاور‘ سانحاتِ کوئٹہ اور اب سانحۂ پولیس لائنز پشاور سمیت ملک بھر میں ہونیوالے دہشت گردی کے سانحات میںاپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے ہاتھوں انسانی خون سے رنگین کر چکے ہیں۔ یہ ایسے قومی سانحات ہیں کہ ان کا جائزہ لیتے ہوئے بھی دل و جگر پھٹنے لگتے ہیں۔ 
16 دسمبر 2014ء کو رونما ہونیوالے سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد پوری قوم میں دہشت گردی کیخلاف یکجہتی کی فضا پیدا ہوئی اور ملک کی تمام سیاسی‘ مذہبی اور عسکری قیادتوں نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے ایک جامع نیشنل ایکشن پلان طے کیا جس کے تحت اب تک شمالی علاقہ جات سمیت ملک بھر میں مختلف اپریشنز ہو چکے ہیں اور ملک کی ہر عسکری قیادت آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے عزم پر کاربند ہوتی ہے۔ اسکے باوجود ملک میں آئے روز کی دہشت گردی کا سلسلہ رک نہیں سکا چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی‘ دینی اور عسکری قیادتیں ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں جس کیلئے وزیراعظم شہبازشریف نے تمام سیاسی قوتوں سے اپیل بھی کی ہے۔ اس مشترکہ نشست میں نیشنل ایکشن پلان پر نظرثانی کی جائے اور اسے قومی ضرورتوں اور تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلئے ملک میں صحیح معنوں میں قومی یکجہتی کی فضا قائم ہوگی تو قومی پالیسی میں بھی کوئی ابہام نہیں رہے گا۔ بلاشبہ ہم یکجہتی اور یکسوئی کے ساتھ ہی دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے قابل ہو سکیں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن