یومِ یکجہتیِ کشمیر
مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پانچ فروری کا دن امسال بھی بھرپور جوش و جذبے سے منایا جائے گا۔اس سلسلہ میں آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر میںجلسوں، کانفرنسوں، ریلیوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ان پروگراموں میں تحریک آزادی کشمیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔پانچ فروری کا دن سب سے پہلے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا گیا جسے بعد میں سرکاری سرپرستی میں منایا جانے لگا اور آج اس دن پوری دنیا میں کشمیریوں کے حق میں ایک مضبوط آواز بلند ہوتی ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر آج ہم ان حالات میں منا رہے ہیں کہ بھارت کی بی جے پی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہے۔ ہر آنے والے دن بھارتی فوج کے مظالم میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور کشمیریوں کی قتل و غارت گری کی طرح ان کی جائیدادیں اور املاک برباد کی جارہی ہیں۔ابھی چند دن قبل ہی بھارتی نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر وادی کشمیر میں نہتے عوام پر بدترین مظالم ڈھائے گئے اور نام نہاد سرچ آپریشن اور چھاپہ مار کاروائیوں کے نام پرکئی کشمیری شہید کر دیے گئے۔بھارتی فورسز کی طرف سے حالیہ دنوں میں جموں میں خاص طورپر مسلمانوں کے گرد گھیراتنگ کیا گیا ہے اور ہندوانتہاپسند تنظیموں کے بھگوا دہشت گرد نہتے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو زبردستی علاقوں سے بے دخل کیا جارہا ہے اورحریت قائدین کے مطابق ہندوانتہاپسندوں مندروں میں اسلحہ جمع کر رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کو بھی دوبارہ فعال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور انتہاپسندوں کے لیے تنخواہوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے تاکہ انہیں مسلمانوں پر مظالم کے لیے اور زیادہ شہ دی جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض ہندوستانی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کا خون بہانے کا یہ سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ نوے کی دہائی سے لے کراب تک تقریبا پونے دو لاکھ افرادشہید کئے جاچکے۔ بتیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں اور چودہ ہزار سے زائد کی عصمت دری کی گئی۔اس میں 1981ء میں پیش آنے والے سانحہ کنن پوش پورہ جیسے واقعات بھی ہیں جب ایک ہی رات میں ایک سو سے زائد خواتین کو اجتماعی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔پونے دو لاکھ کے قریب مکانات تباہ کر دیے گئے۔دس ہزار سے زائد کشمیری ابھی تک لاپتہ ہیں جن کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مختلف علاقوں سے ملنے والی اجتماعی قبروں میں یہی لوگ مدفون ہیں۔صرف برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک دس ہزار افراد پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں کشمیری ایسے ہیں جن کی ایک آنکھ یا دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی۔جنیوا کنونشن کے تحت کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جرم ہے لیکن بھارتی فوج اسرائیل سے درآمد شدہ ایسے کیمیائی ہتھیاراستعمال کر رہی ہے جس سے انسانی جسم گوشت کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
بھارت کی نو لاکھ فوج نے بدترین ظلم و جبر اور ریاستی دہشت گردی کے ذریعے اس وقت کشمیری قوم کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اگرچہ بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے تاہم خاص طور پر جب سے آرٹیکل 370اور 35اے جیسی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کی گئی ہیں کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیری مردوخواتین، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ہو۔ محض ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کو شہید کرنا معمول بن چکا ہے۔بھارتی درندے جہاں چاہتے ہیں نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر گھروں میں گھستے ہیں اورخواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بعض بین الاقوامی اداروں نے اس پر آواز بھی اٹھائی مگر خود کو دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کہنے والے غاصب بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کشمیرمیں درندگی کی انتہا یہ ہے کہ بھارتی فوج جن کشمیریوں کا قتل کرتی ہے، ان کی لاشیں بھی ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی جارہیں اور انہیں دور دراز علاقوں میں نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جاتا ہے۔بھارتی فوج کے ظلم و دہشت گردی سے عام کشمیریوں کی طرح صحافی، تاجر، وکلاء اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کشمیریوں کی معیشت بھی سازش کے تحت برباد کی جارہی ہے اور ان کی دوکانیں، سیبوں کے باغات اور دیگر جائیدادوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
بھارتی فوج تحریک آزادی کشمیر کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حریت قائدین اور کشمیری تنظیموں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں تو انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی مقامی تنظیموں، یتیم خانوں اور دیگر اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کے دفاتر بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ بھارتی فوج نام نہاد خفیہ ادارے این آئی اے اور سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی کو کشمیر میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اس وقت پوری کشمیری قیادت جیلوں میں قید یا نظربند ہے۔انہیں ہندوستانی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق گھروں کے قریب جیلوں میں رکھنے کی بجائے انڈیا کی جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جہاں انہیں ناقص خوراک دے کر سلو پوائزننگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی کشمیری قائدین سنگین نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی جیسے لیڈر بھارتی حراست میں شہید ہوئے تو محمد یٰسین ملک اور سیدہ آسیہ اندرابی جیسے لیڈر بھی جیلوں میں بیماری کے ایام گزار رہے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی پچھلے تین سال سے زائد عرصہ سے مسلسل قید ہیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم فکتوکو تاحیات عمر قید کی سزا سنائی جاچکی۔فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو پاکستانی پرچم لہرانے کے جرم میں تہاڑ جیل میں سیدہ آسیہ اندرابی کے ساتھ قیدرکھا گیا ہے اور انہیں بھی عدالت کے ذریعے جھوٹے مقدمہ میں سزاسنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ مسرت عالم بٹ جنہیں سید علی گیلانی کے بعد حریت کانفرنس کا نیا چیئرمین مقرر کیا گیا، وہ بھی طویل عرصہ سے قید ہیں۔ اسی طرح شبیر احمد شاہ اور دیگر بیشتر مقامی لیڈر بھی جیلوں میں قید ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے کیلئے بھرپور انداز میں سفارتی مہم چلائیں۔دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے اور ان میںکشمیر ڈیسک فعال کر کے قابل ترین افراد کوبھارت کے خلاف اور کشمیریوں کے حق میں لابنگ کی ذمہ داری سونپی جائے۔
بھارت نے جھوٹا ہونے کے باوجود سفارتی مہم کے ذریعے پاکستان کے خلاف اس قدر گمراہ کن پروپیگنڈہ کیا کہ اسے کئی برسوں تک ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں پھنسا ئے رکھا۔ پاکستانی حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ انڈیا کے دہشت گردانہ کردار، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو بین الاقوامی دنیا کے سامنے رکھیں۔بھارت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے کے لیے تمام تر حربے اختیار کر کے دیکھ لیے لیکن بدترین مظالم اور دہشت گردی کے باوجود اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی پوری قوت سے جاری ہے اورچناروں کی سرزمین کشمیر کی آزادی تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔ کشمیریوں کی قربانیوں کی بدولت وہ وقت دور نہیں ہے جب غاصب بھارت کو اپنی نولاکھ فوج جنت ارضی کشمیر سے نکالنا پڑے گی اور مظلوم کشمیری قوم کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت مل کر رہے گا۔