جمعرات، 10 رجب المرجب1444ھ، 2 فروری 2023ء
ریلوے کرایوں میں 8 فیصد تک اضافے پر غور کر رہے ہیں۔ سعد رفیق
اگر وزیر ریلوے اپنے محکمہ کا حال دیکھیں ۔ ریلوے کے مسافروں کی حالت دیکھیں تو انہیں یہ اضافہ کرتے ہوئے لاج ضرور آئیگی۔ مگر کیا کریں ہم ایسے معاملات سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ سعد رفیق کس منہ سے ریل کے کرایوں میں اضافے کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ریلوے کی کوچز یعنی مسافر گاڑیوں کے ڈبے دیکھیں تو کسی کی کھڑکی نہیں تو کسی کا پائیدان ٹوٹا ہے۔ کسی کی سیٹ ادھڑی ہے تو کسی کی بوگی کی مانگ اجڑی ہے۔ فرش پر سوراخ ہیں۔ ٹوائلٹ بس نام کے ہیں، نہ ٹوٹیاں ہیں نہ لوٹے نہ پانی۔ گندگی اور غلاظت بکھری رہتی ہے۔ صرف چند ا یک گاڑیوں پر توجہ دینا ہی ریلوے کا کمال ہے۔ ان مہنگی گاڑیوں میں عام مسافر سفر نہیں کر سکتے۔ انکے کرایے آسمان کو چُھوتے ہیں۔ زمین پر رہنے والے عام مسافر تباہ حال گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، اب تو انکے کرایے بھی جیب پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ پہلے وزیر ریلوے مسافروں کو سہولتیں دیں۔ گاڑیوں کی حالت بہتر بنائیں پھر اضافے کی بات کریں۔ کیا کرایے میں اضافے سے ٹرینوں کی حالت سدھرے گی۔ آمدنی کا بڑا حصہ تو ریلوے کے ملازمین کی فوج ظفر موج لے اُڑتی ہے۔ جہاں دس ملازم درکار ہیں وہاں 50 بھرتی ہیں۔ ان مفت بروں سے جان چھڑائیں۔ ریلوے کی اربوں کھربوں روپے کی قبضہ شدہ اراضی واگزار کرائیں۔ ریلوے کے سب سے کمائو پوت شعبہ گڈز (مال گاڑی) کوفعال کریں۔ پھر دیکھیں ریل گاڑی کیسے فراٹے بھرتی نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے کرایے میں اضافہ کا تو سوچیں بھی نہیں۔
٭٭٭٭٭
پشاور پولیس لائنز ریڈ زون میں افغان مہاجرین کی موجودگی پر تشویش
اب تشویش کریں یا تفتیش۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ ویسے بھولے بادشاہو افغان مہاجرین غیر قانونی طور پر کہاں آباد نہیں۔ صرف پشاور کا کیا رونا وہ تو اسلام آباد میں اتنی بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں کہ جب چاہیں وہاں قیامت ڈھا سکتے ہیں۔ یہی حال کراچی، کوئٹہ اور لاہور کے علاوہ دیگر بڑے شہروں کا بھی ہے۔ ان پر اگر ایران جیسی روک ٹوک والی پالیسیاں شروع دن سے لگائی جاتیں، انہیں مہاجر کیمپوں تک محدود رکھا جاتا۔ صرف پرمٹ رکھنے والوں کو محنت مزدوری و کام کاج کے لیے قریبی شہروں میں جانے کی اجازت ہوتی تو یہ بلا آج ہمارے گلے نہ پڑتی۔ گزشتہ روز پشاور کا دھماکہ کوئی پہلا دھماکہ نہیں۔ اس سے قبل بھی پشاور کی ہی ایک جامع مسجد میں ایسی ہی قیامت ڈھائی گئی تھی کیاہم بھول گئے ہیں۔ ان دہشتگردوں کے نزدیک مسلکی یا مذہبی تقدس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ صرف خود کو درست باقی سب کو غلط سمجھتے ہیں اس لیے کسی کی جان لیتے ہوئے رتی بھر انہیں دکھ نہیں ہوتا۔ اب پشاور پولیس لائنز میں واقعہ مسجد میں دھماکہ کا مشتبہ کردار خفیہ کیمروں کی ریکارڈنگ کے مطابق دو دن سے اس حساس علاقہ میں موجود تھا اور مسجد کی ریکی کرتا رہا۔ اس دوران اسکی مشکوک حرکات کی وجہ سے اسے پکڑا کیوں نہیں گیا۔ آخر وہ اس علاقے میں کسی سہولت کار کی مدد سے ہی آیا ہو گا ٹھہرا ہو گا۔ ورنہ اکلوتے انٹری گیٹ سے اس کو روکنا کہاں مشکل تھا۔ شناخت طلب کیوں نہ ہوئی کہاں جانا ہے معلوم کیوں نہ کیا گیا۔ یہ ہمارے سکیورٹی لیپس نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم اتنے غیر ذمہ دار کیوں ہو جاتے ہیں۔ اب ہر صورت معلوم کیا جائے وہ کہاں سے آیا کون تھا کس کے ذریعے پولیس لائن میں داخل ہوا۔ یہ پتہ چل جائے تو پھر سب کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اسکے ساتھ سارے مہاجرین کو اب آبادیوں سے نکال کر ان کو کیمپوں تک مقیم رکھنے کا کام نہایت سختی سے شروع کیا جائے۔ ٹی ٹی پی والے انہی کی مدد سے کارروائی کرتے ہیں جنہیں مقامی سہولت کار بھی دستیاب ہیں۔ یہ کام تو آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد ہی شروع کر دینا چاہیے تھا۔
٭٭٭٭٭
جوان رہنے کے لیے سالانہ 20 لاکھ ڈالر خرچ کرنے والا امریکی تاجر
اب کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایسے شاہ خرچ لوگوں کے بارے میں اور جب وہ امریکی ہوں تو کچھ کہنا ہی فضول ہے۔ امریکہ بڑا ملک ہے اسے سپرطاقت بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں پیسے والے بھی بہت ہیں۔ انکے ناز و نخرے بھی بے شمار ہیں۔جب دنیا پر حکومت کرنے کیلئے امریکی حکومت ہر سال اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ کسی کو پیار سے اربوں ڈالر کی امداد دے کر اپنا ہمنوا بناتی ہے کسی کو تورا بورا بنا کر اربوں ڈالر پھونک کر زیردام لاتی ہے۔ ایسے فضول خرچ حکمرانوں کے زیر سایہ چلنے والے شہری کیا کم ہونگے۔ وہ بھی اخراجات کے معاملے میں دنیا کے باقی باشندوں کو مات دیتے نظر آتے ہیں۔ بے شک عرب بھی بہت داد و شاش کے شائق ہیں۔ وہ بھی اربوں ڈالر اپنی عیاشی اور بخششیں کے ذریعے اُڑاتے ہیں۔ مگر ابھی تک انہیں سوائے مقوی ادویات کے خود کو فٹ رکھنے کی کوئی خاص فکر نہیں۔ مگر امریکہ میں اس تاجر کو دیکھ لیں جو ابھی صرف 45 برس کا ہے۔ مگر اسے اپنی جوانی کی ،صحت کی فکر کیساتھ ساتھ اپنی خوبصورتی برقرار رکھنے کا بھی جنون ہے۔ موصوف اس بالی عمریا میں ہی جوان نظر آنے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ وہ سالانہ اپنی فٹنس پر پاکستانی روپوں کے مطابق 52 کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں۔ شاید انہیں ابھی تک پنجاب کا یہ پیغام نہیں پہنچا کہ ’’دل ہونا چاھیدا جو ان عمراں چ کی رکھیا‘‘ ہمارے ہاں شاید مالی بحران کا ہمیشہ دور دورہ رہا ہے۔ اسی لیے مردوں کی نسبت ہمارے ہاں زیادہ تر عورتیں آرائش پر توجہ دیتی ہیں۔ ان کو اپنے حسن و جمال کی فکر رہتی ہے۔ تاہم اب مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے جگہ جگہ مردانہ بیوٹی پالر بھی خوب کما رہے ہیں۔ اپنے حسن و جمال پر، فٹنس پر ہمارے ہاں بھی اشرافیہ میں لاکھوں خرچ کرنے کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
لداخ میں 2 ہزار کلومیٹر بھارتی علاقہ چین نے قبضے میں لے لیا ہے۔ راہول گاندھی
بھارت میں قائم انتہا پسند مذہبی دہشت گرد نریندر مودی کی حکومت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ چین نے لداخ کا کتنا علاقہ چھین لیا ہے۔ اس ظالم قصاب کی ساری دلچسپی اس بات میں ہے کہ کہاں کہاں کونسا مسلمان شاپر میں گوشت لے جاتے ہوئے ہندو غنڈوں یا بی جے پی کے انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ جس کے بعد اس گوشت کو گائوماتا کا گوشت قرار دے کر کس طرح اس بے گناہ مسلمان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر یا گولی مار کر یا سر کاٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بھارت میں گائے کا گوشت شاید ہی کہیں دستیاب ہو۔ زیادہ تر بیل یا بھینس کا گوشت ملتا ہے۔ مگر یہ ہندو انتہا پسند گائو ماتا کے شوہر یعنی بیل خالہ بھینس اور خالو سانڈ کے گوشت کو بھی صرف مسلمانوں کو مارنے کیلئے گائے کا گوشت قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔ یہی مودی سرکار کا اصل مقصد ہے جس کے لیے وہ برسراقتدار آئی ہے کہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر زندگی حرام کی جائے۔ اب بے شک مسلمان بھارت میں اقلیت میں ہیں کمزور اور بھارتی حکمرانوں کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ اب اگر بھارت سرکار کو فرصت ملے تو راہول گاندھی کی طرف بھی دھیان دے اور دیکھے وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ شاید اس طرف مودی کی عوام توجہ نہیں دلانا چاہتے اس لیے خاموش ہیں کیونکہ لداخ میں چین کے ہاتھوں پے درپے فوجی شکستوں کے بعد اس رسوائی کا سامنا کرنے کو وہ تیار نہیں۔ کہاں ایک وقت میں بیجنگ اور اسلام آباد کو بیک وقت نشانہ بنانے کی باتیں اور کہاں یہ خفت کہ بقول راہول گاندھی چین نے لداخ میں 2 ہزار کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور بھارتی سورمے چینیوں سے پٹنے کے بعد جان بچا کر بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب اگر بیجنگ اور اسلام آباد نے بیک وقت دوطرفہ محاذ کھول لیا کشمیر بارڈر پر تو لداخ تا سرینگر بھارتی فوج کا تو بینڈ بج جائے گا‘ پھر وہ کیا کریگی۔