عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ! عوامی مشکلات کو پیشِ نظر رکھیں
پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان قرضہ پروگرام کے تحت نویں جائزہ کے مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ پہلے مرحلہ میں بجلی، گیس، ان کی پرائسنگ اور لاگت، قرضوں اور ڈیٹ سروسنگ ریونیو کی پوزیشن اور ہدف سمیت اعداد و شمار کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جس کے بعد پالیسی نوعیت کے مذاکرات میں ممکنہ اقدامات پر اتفاقِ رائے کیا جائے گا۔ پاکستانی ٹیم کی قیادت وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کر رہے ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو مؤثر طریقے سے بروقت مکمل کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں برآمدی شعبے کو 110 ارب روپے کا استثنیٰ ختم کرنا، ایف بی آر کی طرف سے 7470 ارب روپے ٹیکس وصولیوں کا ہدف ہر حال میں پورا کرنا، پٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب کی وصولی، گردشی قرضہ میں خاطر خواہ کمی لانا اور بجٹ خسارہ 4.9 فیصد رکھنا شامل ہے۔حکومت کی طرف مذکورہ شرائط پر من و عن عمل درآمد کی صورت میں پاکستان کو 1۔1 ارب ڈالر مل سکیںگے۔
حکومت نے تو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا آغاز مذاکرات کا باضابطہ دور شروع ہونے سے دو روز پہلے ہی کر دیا تھا۔ جب پٹرول کے ریٹس میں یکدم 35 روپے فی لٹر اضافے کا بم شہریوں پر گرا دیا گیا۔ حالانکہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی بیشی عمومی طور پر عالمی سطح پر قیمتوں کے اتار چڑھائو کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخوں میں مسلسل گراوٹ کا رحجان ہے اور اس کی قیمت 84.85 ڈالر فی بیرل تک آ چکی ہے لیکن اس کمی کا پاکستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا گیا۔ الٹا مزید قیمتیں بڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی کے وسیع معاشی اثرات ہوں گے جس سے فوری طور پر درآمدی مہنگائی بڑھے گی۔ سٹیٹ بنک شرح سود میں اضافہ کرے گا۔ دوسری طرف پاکستان ہی کی وزارتِ خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ماہانہ معاشی آئوٹ لک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ بجٹ خسارہ 1,169 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ ڈالر کی قدر 178 روپے سے بڑھ کر 262 روپے ہوگئی۔ ترسیلاتِ زر میں 11 فیصد، برآمدات میں 7 فیصد، درآمدات میں 18 فیصد کمی ہوئی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 3.70 ارب ڈالر جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی ہوئی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 22 ارب ڈالر سے 9 ارب ڈالر کی سطح پر آ گئے ، جو آج 4.50 ار بڈالر کی کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی اداروں نے ملک کی معاشی صورتِ حال کی جو منظر کشی کی ہے وہ 2 ماہ پہلے تک کی ہے جبکہ اس مختصر عرصہ میں بھی بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت کا تمام تر انحصار عالمی مالیاتی فنڈ سے ملنے والی قرضے کی آخری قسط کی وصولی پر ہے۔ جسکے بعد دوست ممالک اور دوسرے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے کشکول میں کچھ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یوں یہ ایٹمی ملک اور اس کے صابر و شاکر عوام اسی طرح کسمپرسی کے عالم میں گزر بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ سو اس گھمبیر اور انتہائی مخدوش صورتِ حال میں آئی ایم ایف کی نئی شرائط مرے کو شاہ مدار کے مصداق عوام الناس کے لیے مزید مسائل و مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی لہذا حکومت بالخصوص ’’خادمِ عوام‘‘ کہلوانے والے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو اس حوالے سے پاکستان کی خود مختاری کا پاس رکھتے ہوئے ملک کے کمزور اور محروم طبقات کی حالتِ زار کا ادراک کرنا ہو گا اور ایم آئی ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت شرائط میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔