5فروری یوم یکجہتی کشمیر:پس منظر اور تقاضے
اہل کشمیر سکھوں اور مہاراجہ ہری سنگھ کے غاصبانہ قبضوں کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے جس کی پشت پر ہمیشہ پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کی تائید اور پرزور حمایت رہی سرینگر میں 13جولائی 1931ء کو مہاراجہ کی غاصب فوج نے لاکھوں کے پرامن جلوس پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے درجنوں مسلمانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا یہ سانحہ تحریک آزادی میں ایک سنگ میل ثابت ہوا اور پورے برصغیر میں مسلمانوں میں کشمیریوں کے حق میں ایک لہر اٹھی جسے منظم کر نے کے لیے علامہ اقبال کی کاوشوں سے کشمیر کمیٹی قائم کی گئی جس نے پورے ہندوستان میں کشمیر کے حق میں رائے عامہ منظم کی ۔
مجلس احرار کی تحریک پر کشمیر چلو مہم کا اہتمام ہوا جس میں ہزاروں رضا کار گرفتار ہوئے اسی دبائو کے نتیجے میں مہاراجہ نے مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال کیے اور ایک قانون ساز اسمبلی قائم ہو ئی جس میں مسلمانوں کو نمائندگی حاصل ہوئی اس طرح 1947ء کے جہاد آزادی میں ہزاروں قبائل نے شرکت کی باقی پاکستان سے بھی مجاہدین تحریک میں شریک ہوئے بین الاقوامی سطح پر پاکستان نے کشمیریوں کا مقدمہ لڑا اس پس منظر میں 1965ء میں آپریشن جبراٹر ہوا جو سازشوں کا شکار ہو کر اہداف حاصل نہ کرسکا ۔اسی کشمکش میں پاکستان دولخت ہو گیا لیکن دبائو کے باوجودپاکستان کشمیریوں کے مقدمہ سے دستبردار نہ ہوا اس پس منظر میں اہل کشمیر کی اللہ تعالیٰ کے بعد اہل پاکستان ہی سے توقعات وابستہ رہیں کہ وہ انہیں بھارتی استبداد سے نجات دلائے گا۔ افغان جہاد کے نتیجے میںسابق سوویت یونین کی تحلیل اور سینٹرل ایشائی مسلم ریاستوں کی آزاد ی جنہوں نے کشمیری نوجوانوں کے حوصلوں کو جلا بخشی اور وہ تمام پرامن ذرائع سے مایوس ہو کر مسلح جدوجہد پر مجبور کر دئیے گئے۔
کشمیری قیادت اور نوجوانوں کے روابط ریاست پاکستان کو متوجہ کرتے رہے کہ نئے حالات میں پاکستان کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دے تو کشمیری نوجوان اس میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں، شہید ضیاء الحق اور ان کی ٹیم کے ساتھ مشاورت میں ایک لائحہ عمل بھی طے ہوا اسی پر آغاز ہی ہوا تھا کہ عالمی استعمار نے ضیاء الحق اور ان کی ساری ٹیم کو ایک حادثے میں منظر سے غائب کردیا یہ حادثہ اہل کشمیر کی تحریک کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا۔امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم ؒ نے 5 فروری 1990ء پوری قوم سے اہل کشمیر سے یکجہتی کی اپیل کی جس کی تائید تما م سیاسی قائدین نے کی ۔وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیربھٹو نے اس روز عام چھٹی کا اعلان کر کے پورے پاکستان میں بھرپور یکجہتی کا ماحول پیدا کیا۔ یکجہتی کے اس ماحول اور رائے عامہ کے دبائو نے ریاست پاکستان اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس تحریک کی پشتیبانی کا حق ادا کرتے ہوئے عسکری ،ریلیف اور سفارتی محاذ پر بھرپور کردار ادا کرے ،اس وقت سے لے کر آج تک یوم یکجہتی کشمیر ایک اہل کشمیر کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بھارت اور بین الاقوامی برادری پر بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان اور کشمیر آپس میں گہرے رشتوں میں منسلک ہیں جنہیں کوئی جدا نہیں کرسکتا ۔
لیکن بد قسمتی سے 9/11کے بعد عالمی دبائو کے نتیجے میں تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے جوڑ دیا، پاکستان کی بھرپو ر تائید اور پشتیبانی پسپائی کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں بھارتی مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔
آج یوم یکجہتی کشمیر اس عالم میںمنایا جارہا ہے کہ ہندوستان نے ریاستی دہشت گردی کی انتہا کردی ہے 5اگست2019ء کے بعد ریاست کی وحدت کو پارا پارا کردیا ایک آئینی دہشت گردی کے ذریعے ریاست کا مسلم اور کشمیری تشخص تحلیل کرنے کے بھیانک اقدامات کا سلسلہ جاری ہے پہلے ہی وہاں کالے قوانین کی وجہ سے تمام بنیادی انسانی حقوق معطل تھے لیکن گذشتہ تین برسوں کے دوران میں ریاستی ادارے اور قوانین تحلیل کرتے ہوئے دہلی سے غلامی کے فرمان جاری کیے جارہے ہیں اس ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بغاوت اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے اخبارات بند کیے جارہے ہیں سوشل میڈیا پر محض تبصروں کی بنیادپر پڑھے لکھے نوجوان گرفتار کر کے غائب کیے جارہے ہیں تحریک کو قیادت سے محروم رکھنے کی سازشیں جاری ہیں بابا ئے حریت سید علی شاہ گیلانی شہید ؒ کو 12سال گھر میں نظر بند رکھا گیا اور وہ علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہید ہوئے ان کی میت کی بھی بے حرمتی کی گئی اور تدفین میں اعزا و اقارب کوبھی شرکت کی اجازت نہ دی گئی یہ سلوک ان کے جانشین قائد حریت جناب اشرف صحرائی کے ساتھ بھی ہوا وہ جیل میں شہید ہوئے اور رات کے اندھیرے میںبندوقوں کے سائے میں ان کی تدفین ہوئی تعزیتی مجلس میں سے ان کے بیٹوں کو گرفتار کر لیا جو ابھی تک لاپتہ ہیں یہی صورت حال دیگر قائدین کو درپیش ہے ۔مرکزی قائدین حریت شبیر احمد شاہ،یٰسین ملک،مسرت عالم،آسیہ اندرابی تہاڑ جیل میں بغاوت کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اپنے ساتھیوں کے ساتھ جیلوں اور تعذیب خانوں میں تشدد جھیل رہے ہیں، میرواعظ عمر فاروق گزشتہ تین سال سے گھر ہی میں نظر بند ہیں، مجاہدین کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں ۔سید علی شاہ گیلانی مرحوم کا گھر،حریت کانفرنس کا مرکز ،شبیر احمد شاہ کا گھر دفتر ضبط کیا جاچکا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے چیخ و پکار کررہے ہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں ان تمام مظالم کو بے نقاب کیا گیا لیکن ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی میں کوئی فرق واقع نہ ہوسکا۔اندیں حالات کشمیر جو پاکستان کی سلامتی وبقاء کا مسئلہ ہے اس کے تناظر میں یکسوئی سے جامع حکمت عملی طے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔،فی الفور کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا جائے اور بطور فریق اور ترجمان کے پاکستان دنیا پر واضح کرے کہ جب تک ہندوستانی قابض افواج کے خلاف سیاسی،عسکری ،سفارتی جدوجہد جاری ہے پاکستان اہل کشمیر کے شانہ بشانہ ہے ۔تاہم یہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے کہ کشمیری قوم کی تقدیر کا فیصلہ سیاستدان ،بیوروکریٹ یا جنرل کریں یہ کشمیریوں کی جدوجہد ہے جس کی پشت پر پانچ لاکھ شہداء کی قربانیاں ہیں جو بھی ان کے ساتھ غداری کرے گا وہ نشانہ عبرت بنے گا۔ ایک ہمہ گیر جہاد ہی مسئلہ کا حل ہے اس کا احیاء ہی یکجہتی کا حقیقی تقاضاہے ۔