رشتے کا انتخاب اور دیانتداری کا عنصر
اب زمانہ بدل چکا ہے اب والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بچیاں خود ہی رشتے ڈھونڈ لائیں اور تلاش رشتہ کی سر دردی سے انہیں نجات دلا دیں۔اب نہ والدین کو اولاد کی سوچ اور مرضی کی سمجھ آتی ہے نہ بچوں کو والدین کی سوچ اور مرضی منظور ہے۔آجکل تعلیم نے ڈگریاں تو دلا دی ہیں مگر شعور اور تربیت کا فقدان ہے۔ لڑکے شکل و صورت پر مر مٹتے ہیں اور لڑکیاں شکل و صورت کے ساتھ پیسے کو ترجیح دیتی ہیں۔شادی سے پہلے خوش شکل پتلی دبلی لڑکی نظر آنے والی شادی کے بعد اگر بد اخلاق بد لحاظ منہ پھٹ ثابت ہو تو انتہائی بد شکل لگنے لگتی ہے اور ہینڈ سم کماﺅ لڑکا شادی کے بعد اگرہتھ چھٹ بد تمیز نکلے تو بے حد بد صورت لگتا ہے۔ نہ دولت کام آتی ہے نہ شکل و صورت اور ڈگری۔ پہلی ترجیح اخلاق اور تربیت کو دینا تھی۔اس کا کچھ کچھ پتہ چل ہی جاتا ہے اگر والدین کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی لئے تو بڑے کہتے تھے رشتہ کرنا ہوتو پہلے اپنے اطراف نظر دوڑاﺅ کہ قریب کے لوگ دوست رشتے داروں کے بچوں کی تربیت اور اخلاق کا کچھ اندازہ ہوتا ہے مگر بالکل غیر اجنبی لوگوں کا قطعی علم نہیں ہوتا کہ اولاد کی تربیت کیسی ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شادی عموماً چار چیزوں کی وجہ سے کی جاتی ہے: (۱) حسب نسب کی وجہ سے۔ (۲) مال کی وجہ سے۔ (۳) حسن وجمال کی وجہ سے۔ (۴) دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تم لوگ دین داری کو ترجیح دیا کرو۔ اگر ایسا نہ کروگے تو دنیا میں فساد ہوگا۔۔۔ مگر بظاہر دیندار لوگ بھی خوبصورتی اوردنیاداری کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جبکہ دین کو فوقیت دی گئی ہے۔ دین سے مراد لڑکی کا پابند صوم و صلوٰة ہی کافی نہیں بلکہ اس کا لباس اور شرم و حیا مشرقی و دینی اقدار کا ہونا اہم ہے۔پتلی دبلی گوری رنگت خوش شکل لڑکی کا دین بھی اہم نہیں لگتا ، دیندار لڑکا سوچتا ہے دین شادی کے بعد بھی سکھا دے گا۔ یعنی ظاہر کو اہمیت ہے۔ اس کے برعکس با لباس دیندار پسند صوم صلوٰة لڑکی ہے مگر شکل و صورت کی معمولی یا رنگت کی سانولی یا قد کی چھوٹی یا جسامت میں اتنی پتلی دبلی نہیں تو اس کا دین دیندار گھرانے کے نزدیک بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ رشتہ لڑکے کا ہو یا لڑکی کا دیندار خاندانوں میں بھی دین ڈھونگ بن چکا ہے در حقیقت سب کو ماڈل اور صاحب حیثیت رشتے درکار ہیں۔ اب رہا مسئلہ کہ رشتہ ہم پلہ سے کیوں کرنا ضروری ہے تو شریعت نے نکاح کے موقع پر آپس میں نسب، دین داری، شرافت، پیشے اور مال داری میں "کفو" یعنی برابری کو اہمیت دی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی عورتوں کا نکاح کفو(ذات، برادری میں برابر) کے ساتھ کرو، اس لیے شریعت نے فطری جذبے کا لحاظ رکھتے ہوئے کچھ بنیادی اور اہم باتوں میں جانبین سے برابری کو ملحوظ رکھا ہے، لہذا اگر لڑکا اور لڑکی نسب، مال ،دِین داری، شرافت اور پیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ”کفو" کہلائیں گے۔ میاں بیوی کے درمیان معاشرت، رہن سہن اور دینداری وغیرہ میں برابری کی صورت میں اس بات کی زیادہ امید ہوتی ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرے اور رشتہ نکاح مستحکم ہو، کیونکہ بے جوڑ نکاح عموما ًناکام رہتے ہیں اور اس ناکامی کے برے اثرات نہ صرف میاں بیوی پر پڑتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے خاندان تک اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ شریک زندگی کا انتخاب ایک اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے، جس میں خوب باریک بینی سے کام لینا چاہیے۔ شریعت کے بتلائے ہوئے طریقہ سے استخارہ بھی کیا جائے۔ ازدواجی زندگی کا بندھن کمزور پڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ رشتہ کرنے میں بڑی عجلت اور جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے اورکسی قسم کی چھان بین اور جستجو نہیں کی جاتی۔ اسلام رشتہ کرنے میں تاخیر نہ کرنے کا حکم ضرور دیتا ہے، مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آنکھیں بندکرکے جہاں بھی ہو ، جیسے بھی ہو رشتہ کردیا جائے۔ بلکہ مناسب دینی و اخلاقی چھان بین کے بعد ہی رشتہ طے کرنا عقلی اور دینی تقاضا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا ہدایات کو اب دقیانوسی سوچ سمجھا جانے لگا ہے اور نئے دور کی اولاد والدین کو اپنی سوچ اور مرضی سے آگاہ کرتے ہوئے یہ جملہ بولنا ضروری سمجھنے لگی ہے کہ “ ماما پاپا اب زمانہ بدل چکا ہے آپ لوگ پرانے وقتوں کی باتیں کرتے ہیں “۔۔۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اولاد کو بتائے کہ پھر بیوی میں ماں اور شوہر میں باپ بھی مت تلاش کیا کرو کہ تمہارے ماں باپ تو ٹھہرے دقیانوسی اور زوج تمہارے تمہاری مرضی کے آج کے دور کی سوچ کے۔ نہ صبر نہ برداشت نہ سمجھوتا نہ تحمل تو اب بھگتو۔ دین اور تربیت کو ترجیح دو گے تو رشتے میں برکت اور رحمت کی امید ہوتی ہے ، ظاہر داری دنیاداری کو فوقیت دو گے تو ضد بد لحاظی نا شکری اس بدلتے زمانے میں عام ہورہی ہے جس میں گھر بسانے کی امید کم ہوتی ہے۔ افسوس تو تب ہوتا ہے جب آج کے دور کے والدین کو دنیاداری تلاش کرتے دیکھتے ہیں۔ دین اور تربیت کو فوقیت دی جائے تو رب سب کچھ عطا کر دیتا ہے۔ سکون سب سے بڑی نعمت ہے اور سکون نیک تربیت یافتہ رشتے سے نصیب ہوتا ہے۔ظاہر داری کا دین ڈھونگ ہے منافقت ہے۔ مذہبی گھرانوں کی جانچ پڑتال زیادہ ضروری ہے کہ اس نئے زمانے میں مذہبی لبادہ اوڑھنا فیشن بن چکا ہے۔ اصل دین کا پتہ ہی تب چلتا ہے جب دین کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے۔