• news
  • image

پرویز مشرف کی یادیں اور باتیں 

اتوار کی صبح اٹھتے ہی جنرل پرویز مشرف صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو میرے ذہن میں یادوں کا طوفان امڈ آیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں انہیں برجستہ قلم بند کردیتا۔ یوں کالم لکھنے کی دیہاڑی بھی لگ جاتی۔اخبار کے لئے لکھے کالم میں لیکن آپ کو چند اہم واقعات کو چن کر حال ہی میں وفات پائی کسی قدآور شخصیت کے ذاتی پہلوئوں کو اجاگر کرنے کے علاوہ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ مرحوم نے وطن عزیز کو کس راہ پر چلایا۔ لکھنے کے ہنر سے کاملاََ محروم ہوتے ہوئے میں موضوع کو اس انداز میں سمیٹنے کے ہرگز قابل نہیں۔ابتدائی فقرے بھی بہت تگ ودو کے بعد لکھ پایا ہوں۔
جنرل مشرف صاحب سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ کرنل سے بریگیڈئر ہوئے تھے۔انہیں بے خطرآگ میں کودپڑنے والا کمانڈو تصور کیا جاتا تھا۔ میرے ساتھ ہوئی ملاقات میں لیکن وہ زندگی کی لذتوں سے لطف اٹھانے والے کھلے ڈلے انسان محسوس ہوئے۔ پہلی ہی ملاقات میں پرخلوص بے تکلفی کا ماحول فراہم کرنے والے فرد۔ان کے والد اور والدہ تنخواہ دار متوسط طبقے کے شائستہ نمائندہ تھے۔ موسیقی،شعر اور ادب کے دلدادہ۔ ہوس دولت سے آزاد اپنے محدود وسائل میں قناعت اور مطمئن زندگی گزارنے کی علامتیں۔
وقت گزر گیا۔ 1997ء میں نواز شریف صاحب کی دوسری حکومت آگئی۔ چند ماہ بعد ہی خبر مجھے یہ ملی کہ جنہیں ’’مقتدر حلقے‘‘ کہا جاتا ہے منتخب حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں۔ انہیں یہ گلہ بھی ہے کہ وزیر اعظم ریاست کے دائمی اداروں سے مشاورت کے بغیر اس انداز میں فیصلے کرلیتے ہیں جو ’’آمرانہ مزاج‘‘ کا اظہار ہے۔ دریں اثناء سرگوشیوں میں بات یہ بھی چلی کہ ریاستی فیصلہ سازی کے نظام میں ’’مقتدر اداروں‘‘ کی مشاورت کو یقینی بنانے کے لئے ’’قومی سلامتی‘‘ سے مختص کوئی الگ ڈھانچہ بنانے کی کاوش ہورہی ہے۔جنرل جہانگیر کرامت ان دنوں آرمی چیف تھے۔میڈیا کی بدولت خود کو ’’دیدہ ور‘‘ دکھانے کی علت انہیں لاحق نہیں تھی۔ اپنے ’’ادارے‘‘ کی نام نہاد ’’اجتماعی سوچ‘‘ کا برملا اظہار نیول کالج میں ہوئی ایک تقریب میں لیکن برملا بیان کرنے کو مجبور ہوگئے۔ وزیر اعظم کو ان کی تقریر پسند نہ آئی۔اس شک میں مبتلا ہوگئے کہ انہیں ’’تھلے‘‘ لگانے کی گیم شروع ہوگئی ہے۔ آرمی چیف کو انہوں نے ملاقات کیلئے طلب کیا۔ نیک طینت جنرل کرامت انہیں مطمئن رکھنے کو استعفیٰ دینے کو تیار ہوگئے۔ ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف کی تعیناتی ہوئی۔ مشرف صاحب کو فوجی حلقوں میں ’’آرمی چیف مٹیریل ‘‘تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ جنرل علی قلی خان جہانگیر کرامت کے منطقی اور فطری ’’جانشین‘‘ ٹھہرائے جاتے تھے۔
جنرل مشرف کی تعیناتی ہوئی تو سازشی کہانیوں کا انبار جمع ہونا شروع ہوگیا۔کلیدی پیغام اس کے ذریعے یہ اجاگر ہوا کہ ’’فوجی مزاج‘‘ کے حتمی آشنا شمار ہوتے چودھری نثار علی خان نے جن کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے مذکورہ تعیناتی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ’’پنجاب‘‘ سے ابھرے نواز شریف کو سمجھایا گیا کہ یوپی اور دلی سے پاکستان منتقل ہوئے ’’مہاجر‘‘ خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جنرل مشرف فوج کی ’’اجتماعی ثقافت‘‘ کے حقیقی نمائندہ نہیں۔خطرات سے کھیلنے والے کمانڈو ہیںجو سیاسی امور میں مداخلت سے گریز کریں گے ۔مجھ جیسے جھکی افراد اگرچہ مصر رہے کہ آرمی چیف بالآخر اپنے ادارے ہی کا نمائندہ ہوتا ہے۔وہ اس کی اجتماعی رائے نظرانداز کرنے کا متحمل ہوہی نہیں سکتا۔
بالآخر ہم جیسے دیوانے درست ثابت ہوئے۔ نواز شریف صاحب نے ’’غیر روایتی‘‘ پیغامبروں کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے روابط بڑھائے۔مئی 1998ء میں جنوبی ایشیاء میں ایک دوسرے کے ازلی دشمن شمار ہوتے پاکستان اور بھارت نے خود کو ایٹمی قوت کے حامل ممالک بھی ثابت کردیا تھا۔ ’’مہذب‘‘ دنیا اس کے بعد اس فکر میں مبتلاہوگئی کہ جنوبی ایشیاء میں ایک دوسرے کے ازلی دشمن شمار ہوتے یہ دونوں ممالک اب آئندہ کسی باہمی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔نواز شریف نے کمال مہارت سے واجپائی کو لاہور بلواکر مذکورہ تاثرکو جھٹلانا چاہا۔ بھارتی وزیر اعظم قیام لاہور کے دوران مینارِ پاکستان بھی گئے۔ اس کی بدولت پیغام یہ دینے کی کوشش کی کہ ’’بھارت ماتا‘‘ کی 1947ء میں ہوئی تقسیم کی بابت تلملاتے ہندوانتہاپسندوں کے دیرینہ اور قد آور’’ترجمان‘‘ نے پاکستان کی حقیقت کو بالآخر تسلیم کرلیا ہے۔
چند ہی ماہ بعد مگر کارگل ہوگیا۔ ’’مہذب‘‘ دنیا کے خدشات اس کی وجہ سے درست ثابت ہوتے نظر آئے۔ پاکستان کے وزیراعظم اس کی وجہ سے امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پریشانی میں حاضر ہوکر ’’امن‘‘ کی بحالی میں ان کی مدد طلب کرنے کو مجبور ہوگئے۔عوام میں تاثر اگرچہ یہ مقبول ہوا کہ ’’بزدل‘‘ نواز شریف امریکہ اور بھارت کے دبائو کا ’’بہادری‘‘ سے سامنا نہ کرپایا۔ نواز شریف صاحب کی امریکہ سے واپسی کے بعد میرا وسوسوں بھرا دل ان کی حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والی فکر میں مبتلا ہوگیا۔ اپنی فکر کا اظہار اشاروں کنایوں میں کردیتا تو میرے لکھے کئی فقرے خط کشیدہ کرتے ہوئے نواز شریف صاحب تک پہنچائے جاتے۔ مجھے ان کے ذریعے ’’فوج کے ایما پر‘‘ جمہوی نظام کو بدنام کرنے والا ’’آلہ کار‘‘ بناکر پیش کیا جاتا۔ وضاحت کی میں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی اور بالآخر 12اکتوبر1999ء ہوگیا۔
نواز شریف کے دربار میں میرے خیالات کے بارے میں پھیلائے غیبت بھرے تاثر کی بدولت اقتدار پر کامل کنٹرول کے بعد جنرل مشرف نے 17اکتوبر1999ء میں قوم سے ٹیلی وژن پر جو براہِ راست خطاب کیا اس کے فوری بعد ’’تبصرہ آرائی‘‘ کے لئے ’’سینئر صحافیوں‘‘ کے ایک پینل کا انتخاب ہوا۔اس میں میرا نام بھی شامل ہوگیا۔ مجھے پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی تو پھکڑپن سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اطلاع مگر صراحت سے یہ فراہم کردی گئی کہ تبصرہ آرائی کے لئے میرا نام ’’بڑے گھر ‘‘یعنی جنرل مشرف کے دفتر سے آیا ہے۔’’بڑے گھر‘‘ تک میری کوئی رسائی نہیںتھی۔ ’’پنگے‘‘ کوتڑپتے دل نے فیصلہ کیا کہ پروگرام میں شرکت کروں۔چونکہ اسے ریکارڈ نہیں ’’براہِ راست‘‘ آن ایئر جانا تھا اس لئے من کی بات کہہ دینے کی گنجائش نظر آئی۔ پروگرام آن ایئر ہوتے ہی میری باری آئی تو برملا یاددلانا شروع ہوگیا کہ ایوب خان اور جنرل ضیاء بھی نظر بظاہر انتہائی ’’نیک نیتی‘‘ سے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔بالآخر مگر عوامی غضب کا نشانہ بنے۔نہایت خلوص سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ جنرل مشرف ان دونوں کی ناکامی اور زوال کے اسباب کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں گے۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد گھر لوٹتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ آج کے بعد پی ٹی وی ’’تبصرہ آرائی‘‘ کے لئے میرے خیالات جاننے سے گریز ہی کو ترجیح دے گا۔ تھوڑی دیر کو یہ خوف بھی لاحق ہوا کہ اقتدار پر تازہ ترین قابض ہوئے جنرل مشرف بھی میرے خیالات برداشت کرپائیں گے یا نہیں۔
گھر پہنچتے ہی مجھے تاہم طارق عزیز صاحب کا فون آیا۔وہ لاہور کے ایف سی کالج میں جنرل مشرف کے ساتھ زیر تعلیم رہے تھے۔ان دونوں میں تاحیات گہری دوستی رہی۔ طارق عزیز سول سرونٹ تھے۔اقتدار سنبھالتے ہی جنرل مشرف نے اپنے دیرینہ اور بااعتماد دوست کو اپنا ’’پرنسپل سیکرٹری‘‘ متعین کردیا۔ طارق صاحب سے اس دن سے قبل کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میرے ہیلو کہتے ہی انہوں نے بے تکلف پنجابی میں مجھے اطلاع دی کہ ’’میرا یار‘‘ یعنی جنرل مشرف ٹی وی پرگرام میں کہی میری باتوں سے بہت خوش ہوا ہے۔امید ہے کہ آئندہ بھی میں اپنی تحریر وتقریر میں ’’دیانت دارانہ رائے‘‘ کا اظہار کرتا رہوں گا۔ اُن کا فون سننے کے بعد میں ’’جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ والی حیرت میں مبتلا ہوگیا۔ اقتدار کے مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔وقتی اطمینان کے بعد ’’آخر کب تک؟‘‘ کے سوال نے پریشان کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد کئی کہانیاں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اقتدار کے کھیل میں نیک نیتی کسی کام نہیں آتی۔ ربّ کریم سے جنرل مشرف کی مغفرت کی دعا کے علاوہ فی الوقت ان کے بارے میں مزید لکھنے سے قاصر ہوں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن