• news

مشکلیں اور آساں ؟


 سیاسی اور معاشی محاذ دل کے  پھپھولے ہیں جتنا بھی کریدیں گے اتنی ہی درد کی لہریں اٹھیں گی،سیاسی عدم استحکام نے تو ساری کی ساری کتاب معیشت کو ورق ورق کرڈالا ہے، انتشار پھیلانا تو کوئی اس سے سیکھے جس نے گرفتاری کے ڈر سے اپنے گھر کے باہرکارکنوں کی انسانی دیوار کھڑی کرکے جیل بھرو تحریک کا شگوفہ چھوڑا ہے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان آگیا ہے، جن میں کچھ یہ ہیں ، بسم اللہ گھر سے ہوتی ہے ، پہلے اہل خانہ سمیت خود گرفتاری دو پھر عاشقان سے قربانی مانگو بیچارے معمولی قید پر ہی پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں، جیب بھرو تحریک ختم ہوگئی اس لئے اب جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے،سگریٹ بھرنے اور جیل بھرنے میں فرق ہوتا ہے،عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ کس نے بجلی کا بل جلا کر سول نافرمانی کا اعلان کرکے معاشی ضرب لگائی تھی ،اس وقت اگر ریاست جاگ جاتی تو آج پورا پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گروی نہ  رکھنا پڑتا ،لاڈلے کی انا ، لاڈلے کی ضد،میں نہ مانوں،مجھے سلیکٹ کرو، باقی سب کو صفحہ ہستی سے مٹا دو، میں جو کچھ بھی کروں اسے درست مانو، میں جو کچھ کہوں اسے حدیث جان کر اس پر آنکھیں بند کرکے نہ صرف یقین بلکہ عمل بھی کرو،ہر روز عالم بے خودی میں کچھ نیا کرنیکی کوشش میں وطن عزیز کے ساتھ  کھلواڑ جاری ہے ،آج ڈالر 270 کی حد کو بھی پار کرچکا ہے، کیا عوام کیا خواص سب بھوکوں کی طرح اپنی دولت کو ڈالر میں بدلنے کی دوڑ میں شامل ہیں،انکی حالت ایسے زومبیوں سے کم نہیں جو آگے بڑھنے اپنی باری لینے اپنی بھوک مٹانے کیلئے دوسروں کو نہ صرف گرا رہے ہیں بلکہ کاٹ کاٹ کر کھارہے ہیں،دوسری جانب نام نہاد بہادر اہل سیاست ریاست کو نشانہ پر لئے ہوئے ہیں،ان کے منہ میں جو آتا ہے وہ بغیر تولے بولے جارہے ہیں،جس پر قانون نے جب معمولی سی انگڑائی لی تو ٹکر کے لوگوں کی جعلی اکٹردھری کی  دھری رہ گئی، وہ جٹ جو رندے چلانے کے آوازے لگانے پر مشتاق تھا ایک رات میں ہی دمے کا مریض بن گیا،سلاخوں کے پیچھے کی تنہائی اور عدالتوں کے چکر لگے تو اپنی مڈل کلاس یاد آگئی اور پھر دو گز لمبی زبان ایس اندر گئی کہ منظر سے ہی غائب ہوگیا،ایک وہ نابغہ بھی تھا جو جیل کو سسرال کہتا پھرتا تھا جب شکنجے میں آیا تو پولیس کے گلے لگ کر رونا شروع ہوگیا، اپنی باری آنے پر کیمرے کے سامنے بیٹیوں کے نام پر مگر مچھ کے آنسو بہانا شروع ہوگیا،ان سب کو کون بتائے گا کہ انکی حماقتوں کی وجہ سے آج عوام انکی مائیں اور بچے مہنگائی کے ہاتھوں خون کے آنسو رورہے ہیں ، یہ شعر تو سب نے سن رکھا ہے ، رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج ،مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں ، اس شعر میں مرزا غالب عالم بے بسی میں بھی اپنے آپ کو بہادرکہہ کر قائم دائم رہنے کی تحریک دے رہا ہے لیکن آج عوام کیسے زندہ رہیں کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے، حقیقی تبدیلی کی ٹیگ لائین کا پراپیگنڈہ کرنیوالوں کے ناکام تجربہ سے2023ء میں آج جو مشکلات کی سونامی میرے وطن میں آئی ہے وہ اس میں غرق ہوتے چلے جارہے ہیں،چادر منہ پرلیں تو پیر ننگے والی مثال پرانی ہوگئی ہے اب توبچے  کھچے  عوام کیلئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ پاک رکھنا ناممکن ہوگیا ہے،عوام نہ صرف جان بلکہ پہچان چکے ہیں کہ کس کس نے مہنگائی سے پیدا شدہ تباہی و تنزلی میں کتنا کتنا حصہ ڈالا،حیا کا لبادہ پھاڑ کر بے حیائی کو فروغ کس نے دیا؟اخلاقیات کا جنازہ کس نے نکالا؟2 روپے کی روٹی کو 20 روپے کی انتہائی سطح پر کس نے پہنچایا؟150 روپے کلو چاول 450 روپے کے ہمالیہ پر کیسے جابیٹھے ؟ غریبوں  سے دال سبزی  چھیننے والے کون تھے؟عوام کی چائے سے مٹھاس کیسے غائب ہوئی؟عوام کے لیے انڈوں کی پروٹین  پر بھی ڈاکہ ڈال دیا گیا لیکن مجال ہے کسی پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے سر پر جوں رینگی ہو،ایسا لگتا ہے کہ گیت’’ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ،ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے‘‘ مسلسل بجے جارہا ہے اور کوئی حقیقی مسیحا آکر اس کوروک نہیں رہا ہے،یہ ہیں زمینی حالات جن پر چھائے سیاہ بادلوں کی مسلسل گڑ گڑاہٹ سے عوام دہشت زدہ ہوئے جارہے ہیں، عملی طور پر قومی خزانے کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے  یعنی ’’چوری دا مال تے ڈانگاں دے گز ‘‘ مطلب مالِ مفت ،دلِ بے رحم۔

ای پیپر-دی نیشن