• news

جنرل پرویز مشرف کا انتقال


سابق صدر اور پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل پرویز مشرف طویل علالت کے بعد 79 برس کی عمر میں دبئی میں انتقال کر گئے۔ ان کی میت آج (پیر کو) خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان لائی جائے گی تاکہ ان کی تدفین کی جا سکے۔ صدرِ مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے پرویز مشرف کی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس نے بھی جنرل پرویز مشرف کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا اور مرحوم کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ جنرل پرویز مشرف کو اکتوبر 1998ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ ان کی سربراہی میں کارگل کا مشہور زمانہ معرکہ ہوا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو انھوں نے منتخب حکومت کو ہٹا کر مارشل لاء نافذ کر دیا اور آرمی چیف کے ساتھ ملک کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔ 20 جون کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے وہ صدرِ مملکت بن گئے۔ انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں ایک فارمولہ بھی پیش کیا لیکن اسے کہیں سے بھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں بہت سے متنازعہ فیصلے کیے جن کے ملک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا کی طرف سے افغانستان پر مسلط کی جانے والی جنگ میں انھوں نے امریکا کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا اور پورے ملک کو دہشت گردی کی ایک نا ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دیا۔ آج بھی پاکستان جس دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے اس کے ایک ذمہ دار پرویز مشرف بھی ہیں۔ صدرِ مملکت کے عہدے سے سبکدوشی کے بعد ان کے خلاف مختلف مقدمات قائم کیے گئے تاہم انھیں کسی کیس میں بھی سزا نہ ہو سکی۔ آئین توڑنے کے جرم میں سنگین غداری کا مقدمہ بھی درج ہوا جس پر انھیں خصوصی عدالت نے سزائے موت سنا دی تاہم اسے بعد میں کالعدم قرار دے دیا گیا۔ بہرحال جنرل پرویز مشرف کی وفات کے بعد ایک دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکے، ان کے خلاف مقدمات اور ان کے فیصلے اور اقدامات اب اس بڑی عدالت میں چلے گئے ہیں جہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔

ای پیپر-دی نیشن