عفووحلم کے پیکر(۳)
ایک بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ہمراہ ایک سفر جہاد سے واپس تشریف لارہے تھے ۔اثنائے سفر دوپہر ہوگئی دن کی تمازت تیز ہوئی اورلُو بھی چلنے لگی ایک جگہ گھنے درخت تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو ان درختوں کی چھائوں میں قیلولہ کرنے کی اجازت عنایت فرمائی۔ہرشخص نے اپنے لئے مناسب جگہ تجویز کی اوروہاںلیٹ گیا،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ایک جگہ محوِ استراحت ہوگئے اورآپ کی آنکھ لگ گئی اسی دوران میں ایک مشرک غورث بن حارث وہاں سے گزرا۔اس نے جب دیکھا کہ حضور آرام فرمارہے ہیںاورمحوِ خواب ہیں اورقرب وجوار میں کوئی ساتھی بھی موجود نہیں ہے، اس نے سوچا کہ میں آپ کی اس تنہائی سے فائدہ اٹھائوں ، اس نے اپنی تلوار بے نیام کرلی اورحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حملہ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا ۔اچانک حضور کی آنکھ کھل گئی ، آپ نے غورث کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ اپنی تلوار لہرارہا ہے۔اس نے کہا:اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے۔دشمن کے اس طرح درآنے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خوف وہراس کی کوئی کیفیت طاری نہ ہوئی ،آپ نے پورے وثوق سے فرمایا:’’اللہ‘‘مجھے میرا رب بچائے گا۔یہ پُر جلال جواب سن کر اس پر لرزہ طاری ہوگیا ۔تلوار اس کے ہاتھ سے گرپڑی ،حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تلوار کو اٹھالیااورپھر اس مشرک سے پوچھا اب بتاتجھے میرے وار سے کون بچائے گا۔اس نے کہا:کُنْ خَیْرَاَخَذٍ یعنی جو اپنے مخالف پر قابو پاکر اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔آپ ان میں سے ہوجائیں،حضور نے مسکراکر اس کو معاف کردیا اوروہاں سے چلے جانے کی اجازت دے دی جب وہ اپنے قوم کے پاس پہنچا تو بے ساختہ کہنے لگامیں اُس شخص کے پاس سے آیا ہوں جو تمام انسانوںمیں سے بہترین ہے ۔(صحیح مسلم)
آپ کی بڑی مہربانیوں اورعفوودرگزر میں سے ایک اس یہودیہ کا قصہ بھی ہے۔ جس نے آپ کو بکری کے گوشت میں زہر ملاکر دیا تھا ۔صحیح روایت میں ہے کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا تھالیکن آپ نے اسے معاف فرمادیاتھا۔ (بخاری، مسلم)
آپ پر لبید بن العاصم نے جادوکرنے کی جسارت کی ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کوتما م حالات سے مطلع فرمادیا،لوگ اسے پکڑ کر آپ کے پاس لے آئے لیکن آپ نے اس یہودی کی سرزنش تک نہ فرمائی:چہ جائیکہ کہ کوئی کڑی سزا دیتے۔(سنن نسائی)