جنرل پرویز مشرف کا سفر زندگی بھی تما م ہوا
چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.cm
سابق صدر و سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف طویل علالت کے بعد دوبئی کے ہسپتال میں انتقال کر گئے۔پرویز مشرف اقتدارپرقبضہ کرنے کے بعدسے ہمیشہ متنازعہ رہے، وہ شدیدبیماری مبتلا تھے،اور پیرانہ سالی کی باوجودگزشتہ چند سال سے متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں مقیم تھے جہاں وہ مقامی ہسپتال میں زیر علاج بھی رہے۔ان کے ملک سے چلے جانے کی بڑی وجہ غداری کیس میں ان کے خلاف کارروائی بنی۔جس کے نتیجے میں17 دسمبر، 2019 کوخصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیاتھا۔کارگل میں فوجی کارروائی کے بعد سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہو چکی تھی ۔12اکتوبر 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو معطل سبکدوش کر کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیا الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کردیاَ ۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت ملک سے باہر سری لنکا میں سرکاری دورے پر تھے اور ایک کمرشل پرواز کے ذریعے ملک واپس آ رہے تھے۔ تب فوج کے اعلی افسران نے ان کی برطرفی کو مسترد کر دیا اور بغاوت کر کے ملک میں مارشل لاء کی راہ ہموار کر دی۔ وطن پہنچ کر جنرل پرویز مشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کی حکومت کے افراد کے خلاف طیارہ اغواء کیس تیار کر کے مسلم لیگی قیادت کو گرفتار کر لیاگیا۔ ملک میںمارشل لاء کے تحت ایمرجنسی نافذ کرکے تین سالوں میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا گیا۔
سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 1999میں اقتدار پر قبضہ کرکے ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ پھر خود ہی صدر مملکت بن کر بھارت میں آگرہ کے دورے پر وزیر اعظم واجپائی سے ملاقات میں بھی پر جوش دکھائی دیتے رہے حالانکہ اسی بھاتی وزیر اعظم کے ساتھ منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے کامیاب مذاکرات پر کارگل میں کارروائی کرکے انہوں نے ہی امن کیلئے اقدامات کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ جس اعلیٰ عدلیہ سے انہیں اپنی حکومت چلانے کا عبوری ریلیف ملا 8سال بعد 2007میںاسی کے ساتھ ان کا ایک نیا بحران پیدا ہوا جب انہوں نے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کی۔اس سال 3نومبر سے 15دسمبر کے مختصر عرصے کے لیے آئین معطل رہا تھا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت متعدد ججز کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔اس کے بعد احکامات کا اعلان کیا گیا جس میں جون 2001میں صدر کے عہدے پر خود تعینات ہونے والے پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔3نومبر2007پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973کے آئین کو معطل کردیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلی عدالت کے 61ججز فارغ ہوگئے۔ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کوایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا۔28 نومبر2007کوپرویز مشرف سیاست سے ریٹائر ہوئے اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپی اور اگلے ہی روزریٹائرڈ جنرل نے عوامی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔15دسمبر، 2007کوپرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ پی سی او واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔
ملک میں عام انتخابات کے بعد بننے والی پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کی مخلوط حکومت نے بھی پالیمنٹ میں ان کے خلاف مواخذے کے لئے کارروائی شروع کر دی ۔ پرویز مشرف نے واضح کیا کہ ان کا استعفٰی دینے یا جلا وطن ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں۔لیکن 18گست، 2008کو پرویز مشرف کو خود عہدہ صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔22جولائی، 2009کوسپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو 3نومبر 2007کے اقدامات کا دفاع کرنے کے لیے طلب کیا۔یکم اگست، 2009کوسپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر 2007کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور ان کے پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔پرویز مشرف ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دینے سے گریز پا ہوکر پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے اور سیاسی ساتھیوں نے سیاسی جماعت بنائی جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ رکھا گیاجس کے وہ خودسربراہ بنے۔سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو ان کے خلاف سنگین غداری کیس میں طلب کیا۔5 اپریل 2013 کوسپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری ایکٹ 1973 کے دفعہ 2 اور 3 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت منظور کر لی۔اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد کو 'سب جیل' قرار دیا گیا۔24جون، 2013 کووزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔ سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا کیس چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کیا۔حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے تھے۔
سابق آرمی چیف نے انٹرویو میں اپنے دور حکمرانی کے دوران کچھ بھی غلط کام کرنے پر 'معافی' طلب کی تھی۔خصوصی ٹربیونل کی کارروائی کے دوران پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے عدالت لے جاتے ہوئے 'دل کے عارضے' کی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے پرویز مشرف کی حالت کو 'سنگین' بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دیدی۔ جب پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی توانہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔14 مارچ، 2016 کوسابق صدر نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔اس بار بیرون ملک جانے کے بعد سے وہ پھر واپس نہ آئے11 مئی، 2016کوسنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا۔19 نومبر، 2019 کوسنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی۔ جس پرپرویز مشرف نے دبئی کے ہسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ اس کیس میں ان کی شنوائی اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جارہا۔جس فیصلے کیلئے 28نومبر کا دن مقرر کیا گیا تھا بالآخر17 دسمبر، 2019 کوخصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنادیا۔
جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ ہونے والی دونوں جنگوں یعنی پاک بھارت جنگ 1965 اور1971 میں حصہ لیا اور کئی فوجی اعزازات حاصل کیے۔11 ستمبر 2001 میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر اور وزیر خارجہ کولن پال کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے اس کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کر لیا اور یوں امریکی جنگ میں پاکستان باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔اس جنگ کے دوران میں پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر 689 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکا کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی یاداشت پر مبنی کتاب In The Line Of Fire میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکا سے کئی ملین ڈالرز کے انعام وصول کیے۔جن پر گوانتا ناموبے میں کئی برس تک بدترین تشدد کایا جاتا رہا اور بمشکل رہائی پائی۔ان کے متنازعہ فیصلوں میں پتنگ بازی اور مخلوط پارٹیوں کے انعقاد،حدود آرڈینیس میں ترمیم،جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر فوجی آپریشن،بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کا قتل،ڈاکڑ عبد القدیر خان کی بے توقیری اور طویل نظر بندی،ڈاکڑ عافیہ صدیقی کا اغوا اور امریکہ کو حوالگی آج بھی برے لفظوں میں یاد کئے جاتے ہیں ۔