عفووحلم کے پیکر(۴)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ، زید بن سعنہ یہود کا ایک جید عالم تھا، اس نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی جتنی علامات ہماری کتابوں میں بیان کی گئی ہیں میںنے ان سب کا آپ کی ذاتِ والا تبار میں مشاہدہ کرلیا۔مگر دو علامات ایسی تھیں جس کے بارے میں آزمائش کرنا چاہتا تھا،(۱)ان کا حلم جہل سے سبقت لے جاتا ہے (۲)اُنکے سامنے جہالت اورحماقت کا جتنا اظہار کیا جائے اُن کے حلم میں اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔
میںنے ایک حیلہ اختیار کیا ، آپ سے ایک خاص نوعیت کی کھجوروں کا سودا کیا ،قیمت نقد اداکردی اورکھجوروں کی وصولی کے لیے ایک تاریخ مقرر کردی، ابھی اس میعاد کو دودن باقی تھے کہ میں آپ کے پاس پہنچا اوراپنی کھجوروں کا مطالبہ شروع کردیا، میںنے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی قمیض اورچادر کو زور سے پکڑلیا اوربڑا غضب ناک چہرہ بناکر آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا،میںنے کہا:اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)!کیا تم میرا حق ادانہیں کرو گے، اے عبدالمطلب کی اولاد بخدا تم بہت ٹال مٹول کرنے والے ہو،مجھے تمہاری اس عادت کا پہلے بھی تجربہ ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری یہ حرکت دیکھی تو بڑے برافروختہ ہوکر کہنے لگے : ”اے اللہ کے دشمن !تم اللہ تعالیٰ کے رسول کے بارے میں میری موجودگی میں یہ یاوہ گوئی کررہے ہو،تمہیں شرم نہیں آتی “۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام اس گفتگو کو بڑے سکو ن وتحمل سے سنتے رہے اورمسکراتے رہے پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر !جو بات تم نے اسے کہی ہے ،مجھے تو اس سے بہتر بات کی توقع تھی تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے کہتے کہ میں حسن خوبی سے اسکی کھجوریں اسکے حوالے کردوں اوراسے کہتے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ ذرا شائستگی سے کرے، عمر جاﺅاور اس کا حق اسکے حوالے کردواورجتنا اس کا حق ہے اس سے بیس صا ع (ایک پیمانہ) کھجوریں زیادہ اداکروکیونکہ تم نے اسے خوفزدہ کیا ہے تاکہ اس کا بدلہ بھی ہوجائیگااوراسکی دلجوئی بھی ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اورحکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری کھجوریں بھی میرے حوالے کردیںاوربیس صاع مجھے زیادہ بھی دے دیے، میںنے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:اے عمر! حضور اکرم ﷺکی حقانیت کی جتنی علامتیں ہماری کتابوں میں موجود تھیں میںنے ان سب کا مشاہدہ آپ کی ذات میں کرلیا تھا،مگر دونشانیاں ایسی تھیں جنھیںمیں ابھی آزما ءنہیں پایا تھااب میںنے انھیں بھی دیکھ لیا ہے، اے عمر !آج میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میںاس بات پر راضی ہوگیا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ میرا رب ہو ، اسلام میرا دین ہواور محمد مصطفی ﷺمیرے نبی ہوں۔(ابونعیم، بیہقی،مجمع الزوائد)