• news
  • image

سیاسی قیادت کی غلطیاں!!!!


اسلام آباد کی عدالت نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو راہداری ریمانڈ پر مری پولیس کے حوالے کیا ہے۔ شیخ رشید کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نےحال ہی میں شیخ رشیدکے راہداری ریمانڈکی استدعا مسترد کی تھی، شیخ رشید جیل میں ہیں،کہیں باہر نہیں جا سکتے۔ وکیل علی
بخاری نے شیخ رشید کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی مخالفت کی جس کے بعد پراسیکیوٹر نے راہداری ریمانڈ سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں انہیں مری کی عدالت میں پیش کرنا ہے۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے شیخ رشید کو ایک دن کے راہداری ریمانڈ پر مری پولیس کے حوالے اور آج دوپہر دو بجے متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ پولیس نے شیخ شید کو اسلام آباد کچہری میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جہاں کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پولیس سے استفسار کیا کہ کیا پہلے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی؟ اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ پہلی بار کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہیں کی۔
شیخ رشید کی گرفتاری اور جس طرح ان کے ساتھ برتاو¿ ہو رہا ہے اور جس طرح ان سے پہلے شہباز گل اور اعظم سواتی گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کے بعد بھی اگر کوئی شخص گرفتار ہوتا ہے تو بہت ان حالات میں یہ کوئی اچھا پیغام تو ہرگز نہیں ہے۔ میں شیخ رشید کا پرستار تو نہیں ہوں نہ میں ان کے طرز سیاست سے سے اتفاق کرتا ہوں، نہ ان کی سیاسی سوچ ایسی ہے ہے کہ اس پر عمل کیا جائے آئے، نہ بحثیت وزیر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں کوئی بہت اچھا کام کیا اور نہ ہی وہ کوئی نظریاتی سیاست دان ہیں وہ موقع پرست سیاستدان ہیں اور جہاں انہیں اپنا سیاسی فائدہ نظر آتا ہے وہ راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہاں بات کسی ایک سیاستدان کی نہیں بلکہ کہ اس طریقہ کار اور نظام کی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ شیخ رشید ہوں، سعد رفیق ہوں، احد چیمہ ہوں، مریم نواز، شہباز شریف ہوں، شاہد خاقان عباسی ہوں، میاں نواز شریف ہوں، آصف علی زرداری ہوں، فر یال تالپور ہوں، یا خورشید شاہ۔ کیوں سیاستدانوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس قسم کی حرکتوں سے کبھی بھی ملک کا فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی نظام مضبوط ہوا ہے ہے ایسے فیصلوں اور ایسے اقدامات کی وجہ سے ناصرف ملک کو نقصان ہوا بلکہ جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد کم ہوا اور اس کے ساتھ عام آدمی کے مسائل میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا میں جب یہ خبریں جاتی ہیں کہ ایک وفاقی وزیر یا ایک سابق وزیر اعظم کو کرپشن کے الزامات سے گرفتار کیا گیا ہے ہے تو کیا کبھی کسی سوچا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ ہم کاروبار کرتے ہیں یا وہ لوگ جو پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں یا وہ ممالک جو پاکستان کی مشکل وقت میں مدد کرتے ہیں وہ ان الزامات پر اور ایسی کاروائیوں پر کیا سوچتے ہوں گے ایک طرف سرمایہ کاری کے حوالے سے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں دوسری طرف ہم لوگوں سے امداد کا تقاضہ کرتے ہیں اور یہ سب کام کرتے ہوئے ہم کرپشن کی رٹ لگاتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ہر دور میں حکمران کسی بھی کیس میں کسی کے خلاف بھی کچھ ایسا ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے کہ جس سے کہا جائے کہ انصاف ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم خود اپنے گلستان کو اجاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ 
سیاست دان سارا وقت ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے اور ایک دوسرے کی کردار کشی میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے نہ انہیں خود کچھ خیال ہے۔ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے اور اگر کہیں سے کوئی امید نظر آتی ہے تو یہ سب مل کر اس امید کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست دان کب جمہوری رویے اپناتے ہوئے ملکی مفاد کی خاطر بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے فیصلہ سازی میں شریک ہوں گے۔ آج یہ گرفتار ہو رہے گذرے دنوں میں یہ گرفتار کروایا کرتے تھے آنے والے دنوں میں کوئی اور گرفتار ہو گا۔ کیا ملک اس طرح کے سیاسی حالات کا متحمل ہو سکتا ہے۔ سارا وقت گرفتاریوں، ضمانتوں، عدالتوں، مظاہروں میں لگ جاتا ہے اور عام آدمی کی بات کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں بچتا۔ 
ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانا پینا اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ دو وقت کی روٹی مشکل ہو چکی ہے۔ آٹا پہنچ سے نکلتا جا رہا ہے، ڈالرز کم ہو رہے ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پیٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہوتی ہے۔ ادویات مہنگی ہو رہی ہیں، موسم گرما میں بجلی کا استعمال زیادہ ہو گا، بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مڈل کلاس کی زندگی اور مشکل ہو گی۔ ان سب مسائل پر بات کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بات کرنے میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے۔ دشمنوں سے بات چیت اور مفاہمت کا درس دینے والے آپس میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایک طرف کہتے ہیں فنڈز کی کمی ہے تو دوسری طرف انتخابات جیسی بے معنی مشق پر پیسہ برباد کرنے کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ اگر ملک کی بہتری مقصد ہے تو پھر ایک جگہ بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے۔ دہائیوں کے تجربے اور حکومت میں کئی باریاں لینے کے باوجود آج بھی اقتدار میں ہیں یا پھر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاست دان مسلسل غلطیاں کر رہے ہیں اور شدت پسندانہ رویے کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کسی کو یہ گلہ ہے کہ بات چیت کے لیے باضابطہ دعوت نہیں دی جاتی، کسی کو یہ گلہ ہے کہ وہ ہاتھ نہیں ملاتے، کسی کو گلہ ہے کہ اداروں نے مخصوص افراد کو رعایت دے رکھی ہے، کسی کو گلہ ہے کہ اسے رعایت نہیں ملتی۔ کاش کہ کوئی رعایت عام آدمی کو بھی ملے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن