شیخ رشید کی درخواست ضمانت مسترد، عمران کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا: عدالت
اسلام آباد؍ مری (وقائع نگار+ آئی این پی) ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے شیخ رشید احمد کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کردی۔ شیخ رشید کے وکیل نے دلائل شروع کرتے ہوئے ایف آئی آر کا متن پڑھا اور کہا کہ شیخ رشید نے تیار کردہ سازش کے تحت بیان دیا۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تصادم کرانا چاہتا ہے، ان الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی، ایف آئی آر سے قبل پولیس کی جانب سے نوٹس بھیجا گیا جس کا میڈیا کے ذریعے علم ہوا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس کو معطل کیا پھر بھی ایف آئی آر درج کی گئی۔ درخواست گزار نے کہا شیخ رشید نے جس سازش کا ذکر کیا ہے اس پر شیخ رشید سے تحقیقات کرائی جائے، جو دفعات ایف آئی آر میں لگائی گئی وہ دفعات وفاقی یا صوبائی حکومت لگا سکتی ہے کوئی شہری درج نہیں کرا سکتا۔ شیخ رشید عمران خان سے ملاقات کر کے آئے اور انہوں نے عمران خان کے بیان کا ذکر کیا، عمران خان نے بیان دیا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی، آصف علی زرداری کی جانب سے صرف ہتک عزت کا دعویٰ کیا گیا۔ وکیل نے عدالت سے درخواست ضمانت منظور کرنے کی استدعا کر دی۔ پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس معطل کیا، مقدمہ درج کرنے سے نہیں روکا، مقدمہ کے دوران تفتیش کرنا قانون کے مطابق ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے روکا بھی نہیں، شیخ رشید کا بیان انتہائی اشتعال پھیلانے پر مبنی ہے، شیخ رشید نے کوئی عام جرم نہیں کیا، سزا سات سال تک ہے، ملک کی موجودہ صورتحال میں ایسا بیان دینا اشتعال پھیلانا ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ دفعات کے مطابق شیخ رشید کے بیان کا اثر پوری قوم پر ہے، ایسا ہی ہے؟۔ زرداری کہہ رہے ہیں کہ بیان شیخ رشید نے نہیں دیا، عمران خان نے دیا۔ جج نے وکیل ملزم سے استفسار کیاکہ پولیس نے شیخ رشید کو بلایا معلومات کے حوالے سے تفتیش کرنے کے لیے؟۔ وکیل نے کہاکہ انفارمیشن پولیس ریکارڈ میں موجود ہے جو شیخ رشید نے شیئر کردی۔ عدالت نے استفسار کیاکہ ٹرانسکرپٹ میں کہاں لکھاہوا ہے کہ عمران خان نے شیخ رشید کو قتل کی سازش کے حوالے سے بتایا؟، شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان سے میٹنگ ہوئی جس میں قتل کی سازش کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، اس سٹیج پر صرف پولیس ریکارڈ کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، کیا شواہد تھے جس پر شیخ رشید نے بیان دیا؟۔ انہوں نے تو کہا شواہد موجود نہیں۔ وکیل نے کہا کہ عمران خان نے جو کہا اس پر شیخ رشید یقین رکھتے ہیں، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا، زرداری پر الزام لگایا گیا ان پر مرتضی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا الزام ہے۔ پولیس کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی جنہوں نے سازش کی، سیاسی بیانیے پر مقدمات نہیں ہوتے، جھوٹے الزام لگانے والوں پر مقدمہ درج ہونا چاہیے، شیخ رشید پر صرف ہتک عزت کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ شیخ رشید کی جس کے ساتھ میٹنگ ہوئی ان کو تفتیش میں شامل کیا؟، پولیس نے عمران خان کو کیا تفتیش میں شامل کیا گیا؟۔ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ شیخ رشید نے کہا کہ ثبوت نہیں ہیں، اس لیے عمران خان کو شامل تفتیش نہیں کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شیخ رشید نے تو کہا کہ عمران خان نے انہیں بتایا تو عمران خان کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا؟۔ جج نے مسکراتے ہوئے وکلاء سے استفسار کیا کہ میں کوئی شرارت تو نہیں کر رہا نا؟۔ دوران سماعت مدعی وکیل کی جانب سے عمران خان کو شامل تفتیش کرنے کی استدعا کردی گئی۔ جج نے ریمارکس دیے کہ پولیس نے چالان بنا لیا ہے، عمران خان پر جھوٹے الزامات پر تفتیش ہوگی، عمران خان پر سازش کے لیے تفتیش نہیں بنتی۔ مدعی وکیل نے کہا کہ عمران خان اور شیخ رشید مل کر آصف علی زرداری کیخلاف سازش کررہے، بیرونِ ملک بھی ان بیانات کا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ سیاسی کارکنان سمندر پار بھی ہیں، سیاسی جماعتوں کے درمیان نفرت پیدا ہورہی ہے، شیخ رشید نے ٹیلیویژن پر بیٹھ کر مسخرہ پن اور اشتعال ہی پھیلایا۔ شیخ رشید کے وکلاء نے مدعی وکیل کی جانب سے شیخ رشید کو مسخرہ کہنے پر اعتراض اٹھا دیا۔ شیخ رشید نے کہا کہ مجھ پر کوئی کیس نہیں ، اس کے پیچھے فیس ہے، کیس کچھ نہیں میرے گھر میں ڈکیتی کی ہے، میرے گھر کے سامان لوٹ لیا گیا ہے۔ مری میں عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ نئی پارٹی پیئر پارٹ بنانے جارہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ پیئر پاٹ پارٹی کی سربراہی کروں۔ ساری زندگی جیل میں رہ سکتا ہوں بے وفائی نہیں کرسکتا، میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو صوبائی الیکشن نہیں کرا رہے، یہ صوبے اور قومی اسمبلی کا اکٹھا الیکشن کریں گے ، این اے 62سے قلم دوات کے نشان سے لڑرہا ہوں۔ مری نامہ نگار خصوصی کے مطابق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کو مری کے دائر مقدمے میں سول کورٹ مری میں مجسٹریٹ و سول جج ذیشان احمد کے روبرو پیش کیا گیا، مری پولیس نے شیخ رشید کے تین روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازق اور راجہ واجد نور ایڈووکیٹ نے بحث کرتے ہوئے عدالت سے بے بنیاد مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کی۔ مجسٹریٹ نے ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شیخ رشید کو جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔