170ارب کے نئے ٹیکس ، منی بجٹ آئیگا : وزیر خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے ڈیل کے تحت منی بجٹ کے ذریعے170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے جو منی بل یا آرڈیننس کے ذریعے نافذ کئے جائیں گے۔ غیر ہدف شدہ سبسڈیز میںکمی کرنا پڑے گی۔ گیس کے سیکٹر میں سرکلر ڈیٹ میں اضافے کی روک تھام کرنا ہو گی۔ ڈیزل پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں پانچ پانچ روپے کی دو اقساط میں دس روپے اضافہ کیا جائے گا۔ پٹرولیم پر جی ایس ٹی نہیں لگایا جائے گا۔ افراط زر کی وجہ سے بی آئی ایس پی کے بجٹ میں 40 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز اپنی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 170ارب روپے کا ریونیو 30جون تک جمع کرنا ہو گا۔ اس کے لئے آرڈیننس لانا ہے یا منی بل کو منطور کرانا ہے، اس بارے میں وزیراعظم کی قیادت میں فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ائی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کا ڈرافٹ فراہم کردیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان تاحال سٹاف لیول معاہدہ ابھی طے نہیں ہوا۔ ہمارے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ 10 روز تک مذاکرات جاری رہے جس کے دوران پاور سیکٹر، مالیاتی شعبے سمیت دیگر اہم شعبوں پر تبادلہ خیال اور بات چیت کی گئی۔ مشن اب واپس چلا گیا ہے۔ پیر سے ان کے ساتھ ورچوئل میٹنگز ہوں گی، اس عمل میں مزید چند روز لگیں گے، اس کے بعد سٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا پی ڈی ایم کی حکومت اس کو پورا کر رہی ہے۔ ریاست کی جانب سے کیے گئے معاہدے کا اطلاق کر رہی ہے۔ یہ ایک پرانا معاہدہ ہے جو معطل بھی ہوا، اس میں تاخیر بھی ہوئی، اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں کہ کس نے یہ معاہدہ کیا تھا اور کب یہ معاہدہ ہوا تھا۔ ہم اس پر عمل درآمد کی پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز دوپہر تک ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ تمام اہم معاملات پر مذاکرات مکمل کرلئے تھے۔ بعد ازاں وزیراعظم کے ساتھ آئی ایم ایف وفد کی زوم میٹنگ کا بھی انتظام کیا گیا۔ میٹنگ کے دوران طے شدہ معاملات پر گفتگو کی گئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پوری کریں گے۔ موجودہ حکومت عمران خان کے پروگرام پر عملدرآمد کررہی ہے۔ پاکستان تاریخ میں دوسری مرتبہ آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پیکج میں 170 ارب کے ٹیکسز لگانا ہوں گے، اس میں حتی الامکان کوشش ہے کہ کوئی ایسا ٹیکس نہ لگے جو ڈائریکٹ عام ادمی پر بوجھ بنے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف جائزے کے بعد 1.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ انرجی سیکٹر میں اصلاحات ہیں وہ کابینہ کے ذریعے طے ہوئی ہیں اس پر عمل کریں گے، ان ٹارگٹڈ سبسڈیز کو کم کریں گے، پٹرول پر پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی کمٹمنٹ پوری ہوچکی ہے، اور ڈیزل پر 40 روپے لیوی ہے، اب اس پر بقیہ دس روپے 5،5 روپے کرکے پورا کریں گے۔ پانچ سات ملین ڈالر آنے دیں ایل سیز سمیت سب بزنس شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن کی اصلاح کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ملک کے کئی شعبے اسی طرح خسارے میں چلتے رہیں، معیشت اسی طرح غلط پالیسیوں کے تحت چلتی رہے، گزشتہ 5 برسوں کے دوران 24 ویں بڑی معیشت سے اس کو 47 ویں نمبر پر آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے قرضے 70 فیصد بڑھ گئے، ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان اگیا، شرح سود آسمان پر لے گئے، ڈیٹ سروسنگ 5 ہزار ارب کے قریب پہنچا دیا۔ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو غلط طریقے سے چلایا۔ اب ہمیں اس صورتحال کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ بجلی سیکڑ کی لاگت 3 ہزار ارب روپے ہے جبکہ ریکوری صرف 18 سو ارب ہے، اس کی وجہ سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا ہے، اس لئے ہمیں اصلاحات کرنا ہوں گی، یہ اقدامات ہمارے لئے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہمیں ان کو کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی ہم نے اصلاحات کی تھیں، ہم اب بھی اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جائے گا تاکہ ملک کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔ انہوں نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بارے میں کہا کہ 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔75ارب کا بوجھ ہے تاہم یہ سارے کا سارا صارفین پر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں اسحق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سابقہ حکومت ہے، اعتماد کا فقدان ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں حکومت نے معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس کو الٹا کردیا، اس اقدام نے پاکستان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات کے دوران اس کا بہت منفی اثر رہا، وہ پر اعتماد نہیں تھے کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پر عمل کریں گے یا نہیں، اس کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ کوئی بتائے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی وعدہ کیا ہو اور اس کو پورا نہیں کیا ہو، جس چیز پر آپ عمل نہیں کرسکتے، اس پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے، اسی بات کی کمٹمنٹ کرنی چاہیے جس پر آپ عمل کرسکیں اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ لوگ یہ کہہ کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرگیا، انہیں سمجھائیں، اگر وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں جاکر کہے گا جو کہ کہتا تھا کہ ہم بدعنوان ملک ہیں، تو کوئی ملک سرمایہ کاری کرے گا؟، ہر شخص کو غیر ذمے دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔ ایک سوال پر وزیرخزانہ نے کہا کہ نجکاری کا عمل آن ٹریک ہے، وزیراعظم نے خود گزشتہ ہفتے دو تین میٹنگز کی ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی گرتی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک کے ساتھ کیے وعدے پورے ہوں گے اور ڈالرز موصول ہوں گے، ہم نے 414 ملین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر پر بھی گزارا کیا ہے، اس لئے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ حویلی بہادر شاہ اور بلوکی پاور پلانٹس کی نجکاری کیلئے دوست ممالک سے بات چیت چل رہی ہے۔ معیشت کی بدحالی کے ذمہ دار نااہل لوگ تھے۔ ریفارمز تکلیف دہ ہیں لیکن ہم کریں گے۔ ایکسٹرنل فنانسنگ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ نج کاری کے لئے بھی کام کی رفتار تیز کرنا ہوگی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں300یونت تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کے اگست اور ستمبر 2022ء کے بجلی بل معاف کرنے کی منظوری دیدی۔ بجلی کے صارفین سے 76 ارب روپے کے مارک اپ کے بقایا جات کی وصولی کے لئے ایک روپے فی یونٹ اضافی سرچارج عائد کرنے اور بخار کی دوائی پیراسیٹامول کے نرخ بڑھانے کی منطوری دے دی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا۔ ای سی سی نے بجلی کے بڑے صارفین سے 76 ارب روپے کے پی ایچ ایل کے قرضوںکے مارک آپ کے بقایاجات کی وصولی کی منظوری دیدی اور اس کے لئے ایک روپیہ فی یونٹ سرچارج لگایا جائے گا۔ یہ رقم مارچ سے جون 2023ء تک 4 ماہ میں وصول کی جائے گی۔ 300 یونٹ تک کے ڈومیسٹک صارفین اور نجی شعبے کے زرعی صارفین کو اس سرچارج سے استثنیٰ حاصل ہوگا جبکہ اضافی سرچارج کا اطلاق کے الیکٹرک صارفین پر بھی ہوگا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے 10 ارب روپے سے زائد کے بجلی بل معاف کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔ وزارت خزانہ نے سیلاب متاثرہ علاقوں کے بجلی کے بل کیلئے 10 ارب 34 کروڑ کی گرانٹ کی منظوری دیدی۔ سیلاب زدہ علاقوں کے کمرشل صارفین کو ستمبر 2022کے بجلی کے بلز پر بلنگ کے آئندہ سائیکل تک استثنیٰ دے دیا۔ جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بجلی کے بل معاف کرنے کی مد میں 10ارب 34کروڑ روپے گرانٹ جاری کرنے کی بھی منظوری دے دی۔ اجلاس میں کامیاب پاکستان پروگرام کے بارے میں سمری کی اصولی منطوری دے دی۔ اجلاس میں سرکلر ڈیٹ منیجمنٹ کے نظر ثانی شدہ پلان کو بھی منظور کر لیا گیا۔ اجلاس میں وزارت قومی صحت کی سمری پر 18نئی ادویات کی خوردہ قیمت مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ منظور کردہ قیمت بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے مقابلہ میںکم ہے۔ اجلاس میں بخار کی گولی پیراسٹامول کی مصنوعات کی قیمت بڑھانے کی منظوری دے دی۔ پیراسیٹامول سادہ گولی 500 ملی گرام کی قیمت روپے 2.67 روپے اور پیراسیٹامول ایکسٹرا ٹیبلٹ 500 ملی گرام کی قیمت 3.32 روپے مقرر کرنے کی منطوری دے دی۔ اجلاس میں 20ادویات کی قیمت میں کمی کی بھی منطوری دی گئی۔ ای سی سی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کمرشل صارفین کے لیے ستمبر 2022ء کے مہینے کے بجلی کے بلوں کو اگلے بلنگ سائیکل تک موخر کر دیا اور ای سی سی نے سیلاب متاثرہ علاقوں کے گھریلو صارفین کے دو ماہ کے بل بھی معاف کرنے کی منظوری دی اور 10.34 ارب روپے کی اضافی گرانٹ کی منظوری بھی دی۔ وزارت خزانہ نے وزارت دفاع کیلئے 45 کروڑ روپے کی گرانٹ کی بھی اصولی منظوری دے دی۔