• news

"آخری چال


یکا" ویسے تو تاش کا سب سے اہم اور طاقتور پتا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی اصل طاقت اس کا صحیح وقت پر استعمال ہے۔ یکے کی درست چال بازی پلٹ دیتی ہے اور غلط چال ہو جائے تو یہی طاقتور یکا تاش کے سب سے چھوٹے پتے سے بھی مات کھا جاتا ہے۔ تاش کا ماہر کھلاڑی نہ صرف اپنے پتوں کا صحیح وقت پر استعمال کرتا ہے بلکہ مخالف کی چالوں سے اس بات کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ اس نے کون کون سے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں، اس کی اگلی چال کیا ہوسکتی ہے اوروہ مخالف کی ان ممکنہ چالوں کے مقابلے کے لئے اپنے پتے بچا کر رکھتا ہے۔ ماہر کھلاڑیوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف کے تمام بڑے پتے ایک ایک کر کے سامنے آتے چلے جائیں اور پھر آخری چال اس کے ہاتھ میں آجائے،۔ اس تمام کھیل میں سیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کبھی جلد بازی میں اپنے پتے نہ پھینکیں اور کوشش کریں کہ مخالف ایسا کرے، مخالف کی چالوں سے اس کے ارادوں کو پھانپیں اور اس کے مطابق اپنی چالیں ترتیب دے کر رکھیں۔ تاش کے باون پتوں کے ساتھ لگ بھگ اتنی تعداد میں ہی مختلف انداز کے کھیل کھیلے جاسکتے ہیں ان میں زیادہ کھیلا جانیوال ایک کھیل' رنگ ' کہلاتا ہے،،جس میں تاش کے چار رنگوں میں سے کسی ایک چن لیا جاتا ہے اور اس رنگ کے پتے باقی تمام پتوں پر بھاری ہوتے ہیں،،یہی ترپ کے پتے کہلاتے ہیں،،اور ترپ کا چھوٹے سے چھوٹا پتا بھی کسی دوسرے رنگ کے بڑے پتے پر بھی بھاری ہوتا ہے،،تاش کے ان باون پتوں سے کھیلا جانیوالا ایک اور کھیل بلف"کہلاتا ہے جسمیں کھلاڑی مخالف کو ایک بلف یا جھوٹ کے ذریعے سرپرائز دیتا ہے،،اورجس کا بلف پکڑائی نہ دے وہ بازی مار لیتا ہے،،۔
 ہماری سیاست میں بھی گزشتہ آٹھ دس ماہ کے دوران بدل بدل کر چالیں چلی گئیں اور بلفس کا سرپرائز بھی دیا گیا،، گزشتہ سال اپریل میں حکومت گئی تو عمران خان نے فوری استعفوں کا پتا پھینک دیا ایک بار جو پتا پھینک دیا جائے اسے واپس اٹھایا نہیں جاسکتا کھیل کا اصول تو یہی ہے۔ خان صاحب کو بھی جب اس بات کا احساس ہوا کہ انہوں نے غلط چال چل دی تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اب بھلا مخالفین آپ کو یہ چال واپس لینے کیوں دیتے۔ پھر لانگ مارچ کے دو پتے پھینک دئیے اور اسمبلیوں کی تحلیل جو ایک ترپ کا بڑا پتا تھا اسے بھی خان صاحب نے جلد بازی یا پھر مایوسی میں کھیل کر ضائع کردیا۔
اس کھیل میں جب کسی کھلاڑی کے پاس ترپ کا کوئی بھی پتا نہ بچے تو اس کا پتا لگ بھگ صاف ہوجاتا ہے بالخصوص اس وقت جب مخالف کے ہاتھ میں ترپ کے پتے موجود ہوں،ایسے میں اس کے پاس صرف ایک چانس پچتا ہے کہ وہ کسی دوسرے بڑے پتے سے بازی مارنے کی کوشش کرے لیکن ایسا بہت مشکل ہی سے ہوتا ہے“۔
خان صاحب نے ایک ایک کر کے اپنے سارے ترپ کے پتے کھیل دیئے بلکہ یوں کہئے ضائع کر دیئے ،ان کے پاس آخری پتا اسمبلیوں کی تحلیل کا تھا وہ بھی انہوں نے کھیل دیا۔ اب انہیں احساس ہورہا ہے کہ اب تو کام کے پتے ہی نہیں بچے بازی تو ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے،،تو انہوں نے جیل بھرو تحریک کا کارڈ کھیل دیا،،جیل بھرو تحریک برصغیر کی سیاسی تاریخ کا اہم نعرہ تو رہا ہے،لیکن کامیاب نعرہ ہرگز نہیں،،انگریز دور کا گاندھی کا جیل بھرو اندولن کچھ بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکا البتہ گزشتہ دہائی کے پہلے سال کے دوران بھارت میں بزرگ رہنما انا ہزارے کی کرپشن مخالف تحریک میں جیل بھروکے نعرے کو کچھ کامیابی ملی لیکن وہی انا ہزارے چار سال بعد اس نعرے سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے،،۔ 
پاکستان میں اسی کی دہائی میں ضیا الحق دور میں ایم آر ڈی کی جیل بھرو تحریک تواتر سے جاری رہی جس کے بعد ملک میں اس نعرے کو ایک دھمکی کے طور پر تو استعمال کیا گیا لیکن اس سے زیادہ نہیں،،،خان صاحب بھی جیل بھرو تحریک کے کارڈ کا استعمال تاش کے اس کھلاڑی کی طرح کر رہے ہیں جس کے پاس ترپ کا کوئی بھی پتا نہیں بچا،ایسے کھلاڑی کی جیت کا دارومدار مخالف کی غلط چالوں پر ہی رہ جاتا ہے،،اسی لئے وہ کھیل کو آخری چال تک لے جانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید اس دوران کہیں دوسرا کوئی بڑی غلطی کر بیٹھے،،اور اس کی غلط چال کا فائدہ مل جائے،لیکن جب مخالف کے پاس ترپ کا کوئی ایک بھی پتا بچا رہ جائے تو دوسرے کے لئے جیت کا چانس ختم،،اپنی چالیں چل دیں اب خان صاحب کے کھیل کا تمام تر دررومدار مخالفین کی اگلی چالوں پر ہے،،دیکھیں سیاسی تاش کے اس کھیل میں دوسری جانب سے کونسا پتا سامنے آتا ہے،،کھیل کا سارا دارومدار اب اس آخری چال پر ہی ہوگا۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن