اسلام کیلئے جینے اور مرنے والے محمداسد
قومیں اپنے محسنوں کو جانتی ہیں، ان کی قدر کرتی ہیں اور انہیں یاد رکھتی ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان کا پہلا باقاعدہ شہری ہونے کا اعزاز کس شخصیت کے پاس ہے ؟ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ کن کو جاری ہوا؟ کیا کسی کو معلوم ہے سعودی عرب میں جدہ شہر میں پاکستانی وزارتِ خارجہ کا وفد ہفتوں بے یار و مددگار پڑا رہا۔ مگر اس شخصیت کے آتے ہی اسے شاہی مہمان کا درجہ دیا گیا؟ برصغیر کی آزادی سے قبل ہی انڈین نیشنل کانگریس نے عرب ممالک اور یورپ میں سفارت خانے قائم کر دئیے تھے۔عرب دنیا میں پاکستان کو برصغیر میں اسرائیل کی طرز کی ایک غیر فطری مملکت کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو اسے رسول اسلام‘ یعنی (امن کے پیغمبر کا خطاب دیا گیا۔)
یہ مئی1951ءکی بات ہے۔ پاکستان نے جدہ میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی وفد قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کی سربراہی میں سعودی عرب بھیجا۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ پاکستانی وفد کو کسی نے نہیں پوچھا۔۔ پھر محمد اسد کو بلایا گیا تو شاہی خاندان کے سرکردہ رہنما خود اسد کے استقبال کیلئے آئے اور بڑی عزت و احترام کے ساتھ پاکستانی وفد کو شاہی مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔سعودی بادشاہ نے نہ صرف سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی بلکہ پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقاتِ کی راہ متعین کی۔
پاک سعودی تعلقات میں بنیادی کردار اسد کا ہی رہا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا میں بھارتی لابی کے بت اور پراپیگنڈے کو پاش پاش کر دیا۔محمد اسد نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ مشرق وسطی کی پاکستان کے متعلق خارجہ پالیسی کی بھی کایا پلٹ دی۔
محمد اسد کی تربیت سعودی شہزادوں کے ساتھ ہوئی۔شہزادہ فیصل جو بعد میں شاہ فیصل کے نام سے معروف ہوئے اسد کے قریبی دوست تھے۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود اسد کو بیٹوں کی طرح چاہتے تھے۔ یہ محمد اسد ہی تھے جنہوں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔
محمد اسد کون تھے: محمد اسد 1900 میں لیویو میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے جو کہ موجودہ یوکرین کا شہر ہے۔ انہیںLoopold Weiss کا نام دیا گیا۔اس زمانے میں لیوویو آسٹرو ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔ انہیں لڑکپن سے ہی سیاحت کا شوق تھا۔
قبول اسلام۔یہ حقیقت ہے کہ زیب داستان۔ وہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے جہاں ایک حجاز کے بدو بھی سفر کر دیے تھے۔ اسد نے انکی دعوت پر اسلام قبول کیا۔
ایک اور کہانی کے مطابق جرمنی میں اپنے قیام کے دوران سورہ التکاثر پڑھی اور برلن کی سب بڑی مسجد میں ڈاکٹر عبدالجبار خیری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام محمد اسد رکھا گیا۔ محمد اسد کی ترغیب پر انکی اہلیہ ایلسا بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔
یورپ کا تحفہ۔ علامہ اقبال اور مولانا مودوی سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔دونوں شخصیات اسد کو اسلام کیلئے یورپ کا تحفہ کہتے تھے۔ انہیں علامہ اقبال نے واپس یورپ جانے سے بڑا اصرار کر کے روکا تھا کہ نئی اسلامی مملکت میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔ 1942 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے اسد کو جرمن ہونے کی وجہ سے دشمن جنگجو قرار دیکر جیل میں ڈال دیا تھا۔
اسد بطور صحافی۔ اسد نے 1922 سے1925ءتک ایک جرمن اخبار لپوپولڈ کے نمائندے کے طور پر مشرق وسطی میں کام کیا۔اس دوران انہوں نے مصر، اردن، شام، ترکی، فلسطین، عراق، ایران، وسط ایشیا، افغانستان اور روس کی سیاحت کی اور مسلمانوں کی تہذیب کو قریب سے دیکھا اور اسلام کا مطالعہ کیا۔ جزیرہ نمائے عرب میں تقریبا 6 سال رہے اور سعودی عرب کی مملکت کا قیام انکے سامنے ہوا۔ مدینہ میں انکی دوسری شادی ہوئی جہاں 1932 میں انکے بیٹے طلال پیدا ہوئے۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہیں بار بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنہوں نے اسد کو واپس یورپ جانے سے روکا تھا وہ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔جو رہ گئے وہ اقتدار کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے۔ پاکستان میں اپنے ہیروز کو نظر انداز کرنے کی روایت شاید اسد سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسد کی اسلام کیلئے خدمات: اسد قرآن اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔ اسلام کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں محمد اسد کا اپنا کردار ہے۔۔ انہوں نے:
Islam at the crossroads . , 1934 میں لکھی۔ The road to Mecca. ۔ 1954 میں لکھی۔The principles of State and Government in Islam. ۔ 1961 میں لکھیانہوں نےThe message of the Qur'an/ ۔ 1980 میں لکھی۔
ان کی اور بہت سی کتابیں اسلام کے عالمی ورثے کا حصہ ہیں۔اسد عربی مادری زبان کی کی طرح بدوی لہجے میں بولتے تھے ان کا انتقال 23 فروری 1992 کو ہوا اور غرناطہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
اسد ریاض اور جدہ کے محلات کی زندگی سے لطف اندوز بھی ہوئے اور دیار غیر میں کسمپرسی کی حالت سے بھی گزرے۔ وہ لاہور جیسے تاریخ، ثقافتی اور قدامت پسند شہر میں بھی رہے، برلن اور نیویارک جیسے شہروں میں زندگی کو بہت قریب سے بھی دیکھا۔ لیکن ثابت قدمی سے اسلام پر قائم رہے۔
پاکستان کیلئے انکی کوششیں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہیں۔آج پاکستان کی پارلیمنٹ میں اسد جیسے محسن کی تصویر تو کیا لگانی تھی، اسمبلی کے کسی ممبر کو انکا نام بھی معلوم نہیں ہوگا۔اسد نے 20 فروری 1992 میں اس دارفانی سے کوچ کیا۔ انکی وفات کی خبر پاکستان کے صرف ایک اخبار نوائے وقت نے شائع کی تھی۔ اسرائیلی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار، جو اسد کے قریبی رشتے دار تھے۔ انکی وفات ہر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخی جملے کہے۔
اسد اسلام کیلئے جیے اور اسلام ہی پر فوت ہوئے۔ لیکن جب سعودی عرب اور پاکستان،دونوں ان سے لاتعلق ہو گئے۔ انہیں دوبارہ یورپ نے ہی پناہ دی۔