نبیل نجم سے علی زریون تک
موسم جیسے جیسے تبدیل ہو رہاہے لاہور کے دن اوررات جو دھند میں چھپے تھے اب نکھرتے جا رہے ہیں، دو ہفتے پہلے تک جو شدید سردی تھی اب اس میں بھی کافی کمی آ گئی ہے، لگاتار چمکتی دھوپ کی وجہ سے دن میں گرمی اور رات کو ہلکی سی خنکی کا احساس ہی اب باقی رہ گیا ہے۔اس بدلتے سہانے موسم کے ساتھ ساتھ اب ہر پل لاہور کی رونقوں میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ٹھنڈ نے جو جمود طاری کیا تھا اس پر بہار کی کونپلیں پھوٹنے لگیں گی۔ اس سال اس جمود کو پاکستان آرٹس کونسل کراچی نے توڑا ہے اور الحمراء لاہورمیں تین روزہ پاکستان لٹریری فیسٹول سے بہار کو ’’جی آیاں نوں‘‘ کہا ہے۔ احمد شاہ ایک کرم یافتہ انسان ہیں کیوں کہ اتنے بڑے کام کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہر طرح کی منصوبہ بندی کے ساتھ جب تک خدا کا خاص کرم نہ ہو، معاملات سلجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ وجود کی طاقت اور ذہن کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جب تک ایک ان دیکھی طاقت کا سائبان انسان کے ہمراہ نہ ہو، دو قدم چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
10تا 12فروری جاری رہنے والا یہ میلہ پورے شہر کو چکا چوند کر گیا اور اب لاہور والوں کے لئے ایک نیا ریکارڈ بھی بنا گیا کہ جس تعداد میں شائقینِ ادب اس میلے میں شریک ہوئے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اسی تقریب کے دوسرے روز ہونے والا مشاعرہ سننے جب پہنچا تو اُمید کے برعکس نوجوان یوکرائن سے آئی ہوئی کمالیہ اور علی ظفر کی پرجوش موسیقی سننے کی بجائے ہال نمبر ایک میں مشاعرہ سننے کو ترجیح دی۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ، پہلی دفعہ دیکھا کہ کرسیوں کے علاوہ سیڑھیوں پر بھی بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ تھی۔ مشاعرے کی نظامت شکیل خان اور ڈاکٹر عنبرین حسیب نے کی۔مشاعرے میں پاکستان اور بیرونِ ملک سے بڑے نامور شعراء نے شرکت کی ، صدارت مشہور شاعر افتخار عارف نے کی اور دیگر شعراء میں نبیل نجم، صوفیہ بیدار، عدنان بیگ، خالد مسعود خان، عمیر نجمی ، عمار اقبال، صائمہ آفتاب، اتباف ابرک،رحمان فارس،شکیل جاذب، علی زریون، عباس تابش، ڈاکٹر صغرا صدف، حارـث خلیل،ناصرہ زبیری، شوکت فہمی، حمیدہ شاہین، ثروت محی الدین،ڈاکٹر فاطمہ حسن، یاسمین حمید،اشفاق حسین (کینیڈا)، سردار علی شاہ، خورشید رضوی اور پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی شامل تھے۔
مشاعرے کے آغاز میں شکیل خان نے سب سے پہلے نوجوان شاعر نبیل نجم کو دعوتِ کلام دی ، جنہوں نے اپنے پنجابی اشعار سے محفل کو گرما دیااور حاضرین سے خوب داد سمیٹی، ان کی چند اشعار ہیں:
ایسے لئی تے رو نئیں ہویا
پہلی وار دھرو نئیں ہویا
وکھ ہو کے وی خوش آں دوویں
جو چاہیا سی او نئیں ہویا
تیرے باہجوں اج وی کلّا
ٹُٹیاں واں پر دو نئیں ہویا
عمیر نجمی کے چند اشعارپیشِ نظر ہیں:
مجھے پہلے پہل لگتا تھا ذاتی مسئلہ ہے
میں پھر سمجھا محبت کائناتی مسئلہ ہے
پرندے قید ہیں تم چہچہاہٹ چاہتے ہو
تمہیں تو اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ ہے
اس کے بعد نوجوان شاعر عمار اقبال نے اپنی نظم ’’بجوکا‘‘ منفرد اندازِ بیاں میں پیش کر کے محفل میںسماں باندھ دیا۔ رحمان فارس بھی جوان امنگوں کا خوبصورت شاعر ہے ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
جب اُس کی زندگی میں کوئی اور آگیا
تب میں بھی گاؤں چھوڑ کر لاہور آگیا
ہم اہل کفرہر مذہب کی تحریریں پڑھیں گے
مگر ایمان لانے کو تیری آنکھیں پڑھیں گے
مجھے اَن پڑھ سمجھ کر چھوڑ جانے والی لڑکی
تیرے بچے نصابوں میں میری غزلیں پڑھیں گے
رحمان فارس کے بعد محفلِ مشاعرہ میں اگلے شاعر علی زریون کو دعوتِ کلام دی گئی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا، ان کے یہ اشعار دیکھیے:
چادر کی عزت کرتا ہوں اور پردے کو مانتا ہوں
ہر پردہ ، پردہ نہیں ہوتا ،اتنا میں بھی جانتا ہوں
سارے مرد ہی اِک جیسے ہیں تم نے کیسے کہہ ڈالا
میں بھی تو اِک مرد ہوں تم کو خود سے بہتر مانتا ہوں
اس مشاعرے میں نامور شاعر امجد اسلام امجد نے بھی شرکت کرنا تھی اور ان کا نام بھی شامل تھا، مگر اس میلے کے سجنے سے دو دن پہلے ہی وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ، اس لئے اس مشاعرے کو ان کی یادوں سے منسوب کیا گیا، تمام شعراء نے ناصرف انہیں یاد کیا بلکہ انہیں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا، افتخار عارف نے ان کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست کی ، لاہور میں منعقد ہو نے والے اس مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ جہاں ملک کے بڑے شعراء کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا وہیں آج کی نوجوان نسل کے نمائندہ شعرأ علی زریون، عمیر نجمی ، عمار اقبال اور نبیل نجم سے لوگوں کی والہانہ عقیدت دیکھنے کو ملی۔
آخر میں احمد شاہ کے لئے بہت ساری دعائیں جنہوں نے پنجاب اور خصوصاً اہلِ لاہور کے لئے اتنے بڑے میلے کا اہتمام کیا اورلوگوں کی بے شمار محبتیں سمٹیں، امید ہے یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ آخر میں صدرِ محفل افتخار عارف کے چند اشعار :
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
بہت مشکل زمانوں میں بھی ہم اہل محبت
وفا پر عشق کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں
بہت رونق تھی ان کے دم قدم سے شہرِ جاں میں
وہی رونق ہم ان کے بعد رکھنا چاہتے ہیں