• news

میرے کان کا پردہ


میری یہ بات سن کر ڈاکٹر خالد کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ میرا ایک جاننے والا ایک صحافی بھی عین اْسی وقت آن ٹپکا۔ اس نے بھی ڈاکٹر کے خوب لتے لئے اور خبر لگانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ اِس سے پریشان حال ڈاکٹر کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ تاہم میں نے اْس صحافی کو خبر لگانے سے منع کر دیا۔ کیونکہ خبر لگنے کی صورت میں میری سبکی کا احتمال نسبتاً زیادہ تھا۔ تاہم یہ بات میری سوچ سے بالاتر رہی کہ ای این ٹی کے سکندر سے میرے کان کے اندر پھنسا ایک معمولی اور حقیر سا میٹل رِنگ کیوں فتح نہ ہو سکا۔
وارڈ سے باہر نکلنے کے بعد میں اور ڈاکٹر ایاز حیدر سید پور روڈ پر واقع ڈاکٹر اسلم چودھری کے پرائیویٹ کلینک پر پہنچے۔ ڈاکٹر اسلم چودھری میرے پرانے دوست تھے اور ناک کان اور گلے کے امراض کے حوالے سے اْن کا طوطی بولتا تھا۔ اْن کے گلے لگ کر رونے کو دل کر رہا تھا مگر بزدلی کے طعنے سننے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ انہیں مختصر اور نپے تلے الفاظ میں اپنی رودادِ الم سنائی۔ کان سے روئی نکالتے اور ایک غیر مانوس چھوٹی سی مشین کی مدد سے کان کا معائنہ کرتے ہوئے قدرے درشت لہجے میں کہنے لگے "آپ پہلے میرے پاس کیوں نہیں آئے" میں نے اپنی شرمندگی چھپانے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہوئے جواب دیا" ڈاکٹر صاحب! ضروری نہیں کہ مجھ جیسا آدمی ہر وقت صحیح فیصلے کرے۔ میں گاہے بگاہے غلط اور طفلانہ فیصلے کرنے پر بھی برابر قدرت رکھتا ہوں۔ آپ اسے میری حماقت سمجھ کر نظر انداز کر دیجئے"
میرے جواب پر ڈاکٹر صاحب نے کوئی بات کرنے کی بجائے فقط ہلکا سا تبسم بکھیرنے پر اکتفا کیا۔ میں نے اپنے کان کی حالت پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ کان شدید متاثر ہوا ہے۔ بلیڈنگ کان کا پردہ جزوی طور پر پھٹنے سے ہوئی ہے۔ کان کا پردہ پھٹنے کا سن کر میرا دماغ پھٹنے کے قریب آ گیا۔ مجھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ بمشکل اپنے خطا اوساں بحال کرتے ہوئے پوچھا "میٹل رِنگ اِدھر ہی آپریشن کرکے نکال دیں گے یا کل اْدھر سرکاری ہسپتال میں؟…۔ بے ہوش کریں گے یا اْس کے بغیر ہی کام چل جائے گا؟" دراصل بے ہوش نہ کرنے کی صورت میں میں ذہنی طور پر خود کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار کر رہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ تو انہوں نے نکال بھی دیا ہے۔ چھوٹی سی سٹیل کی پلیٹ میں پڑا رِنگ میری بے بسی اور کھجالت کا مذاق اڑا رہا تھا۔ تاہم اسے دیکھ کر میری جان میں جان ضرور آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ادویات لکھ کر دیں اور کہا کہ ان ہائی پوٹینسی ادویات کے متواتر استعمال سے آپ کا کان پہلے جیسا تو نہیں ہو سکے گا مگر امید ہے کہ اسی فیصد یا زیادہ سے زیادہ نوے فیصد تک بہتر ہو جائے گا بشرطیکہ آپ میری تجویز کردہ میڈیسن کے استعمال کے ساتھ ساتھ میری بتائی ہوئی ہدایات پر بھی سختی سے عمل کریں۔ وہ ہدایات کیا تھیں؟ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ "نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنی ہے، جھکنا نہیں ہے، کھانسنے اور قہقہہ لگانے سے مکمل پرہیز کرنا ہے، سوتے وقت متاثرہ کان کو اوپر کی جانب رکھ کر لیٹنا ہے، ٹیلیفون بھول کر بھی متاثرہ کان سے نہیں سننا، کان کے اندر انگلی نہیں ڈالنی، نہاتے وقت دھیان رکھیں کہ پانی کان کے اندر نہ جانے پائے اور ہر دوسرے تیسرے دن کلینک پر چیک اپ کے لئے آنا ہے تاوقتیکہ میں منع کر دوں"۔
میں اور ڈاکٹر ایاز حیدر نے ڈاکٹر اسلم چودھری کا شکریہ ادا کرکے واپسی کی راہ لی۔ دوسرے دن ڈاکٹر ایاز حیدر کا فون آیا۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد ڈاکٹر خالد کے بارے میں پوچھا۔ ڈاکٹر خالد کے خلاف میرا غصہ بھی کان کے درد میں کمی کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر ایاز حیدر کا سوال انہی پر لوٹاتے ہوئے اْن سے رائے طلب کی۔ تھوڑے توقف کے بعد ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے، "میرے خیال میں آپ دل بڑا کرکے درگزر سے کام لیں تو زیادہ مناسب ہوگا، آگے آپ کی مرضی"۔ میں نے سر ِتسلیم خم کرتے ہوئے کہا "ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں… مگر آپ ڈاکٹر خالد سے بھی وعدہ لیں کہ اِس طرح کا ہنر وہ کسی اور پر نہ آزمائیں۔ گاہے بگاہے ڈاکٹر اسلم چودھری یا کسی اور متعلقہ ماہر سے رہنمائی لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اْن کے اتنے چھوٹے سے تردد سے بہت سارے متاثرین کے کانوں کے پردے پھٹنے سے بچ جائیں گے "۔
(ختم شد)

ای پیپر-دی نیشن