• news

امجد اسلام امجد کی یادوں کے دیپ


کسی بھی شخصیت اور اپنے پیاروں کی دائمی جدائی پر کچھ لکھنا خاصا کٹھن کام ہوتا ہے یہ دنیا فانی ہے اور ہر آنے والے کو ایک وقت مقررہ پر جانا ہوتا ہے زندگی میں کسی موڑ پر کسی پیارے کے بچھڑنے کا دھڑکا بھی دلوں کو لگا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ شخصیات اپنی زندگی کی خوبصورتیوں اور اچھی یادوں کی وجہ سے دلوں پر ہمیشہ کیلئے نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ امجد اسلام امجد کی شخصیت بھی ایسی تھی کہ ان کے دنیائے فانی سے جانے کے بعد ان کے چاہنے والے اپنی باتوں اور یادوں میں ان کی یادوں کی کہکشاں سجا تے ہوئے انہیں یاد کر رہے  ہیں اور ان کی دائمی جدائی کو ادبی دنیا کا نقصان قرار دے رہے ہیں 
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے 
تمھیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے  
80ء کی دہائی میں گورنمنٹ ایم اے او کالج میں ہونے والی پہلی ملاقات سے لے کر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے مشاعروں، اہل قلم کانفرنسوں اور  گزشتہ سال اکادمی ادبیات کی  ایوان اعزاز کی تقریب میں ہونے والی آخری ملاقات تک امجد اسلام امجد کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں سے آشنائی رہی۔ امجد اسلام امجد نظم اور غزل کے خوبصورت شاعر کی حیثیت سے نسل نو میں خاصے مشہور اور مقبول رہے۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات میں ان کی رومانوی شاعری بھی بہت سوں کو ازبر ہے۔وہ شاعر محبت تھے۔ ان کی محبت کی نظمیں زبان زد عام ہیں۔  یقینا ان کی وفات سے شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے ان کا مقبول ڈرامہ ’ وارث‘ جب آن ایئر ہوتا تو سڑکوں پر ویرانی چھا جاتی تھی۔ وارث کی طرح دہلیز اور سمندر جیسے ڈرامے بھی عوام میں خاصے مقبول ہوئے۔ ان کی بیس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں سفرنامہ، تراجم اور کئی  شعری مجموعے شامل ہیں۔ ساتواں در، ذرا پھر سے کہنا، خزاں کے آخری دن، برزخ اور فشار جیسے شعری مجموعوں نے ان کے شعری سفر کو جلا بخشی ہے۔ معلم کے پیشے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ وہ پنجاب آرٹس کونسل، اردو سائنس بورڈ اور چلڈرن کمپلیکس جیسے اہم  سرکاری اداروں کے انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ ان کی خدمات کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (1987ئ) اور ستارۂ امتیاز(1998 ئ) کے قومی  اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ملتان سے ادبی جریدے سائبان کی اشاعت کے دوران  اپنے  ماموں زاد اختر مجوکہ کی وساطت سے ایم اے او کالج میں محترم امجد اسلام امجد سے ہونے والی پہلی ملاقات بعد میں اور بہت سی کئی ملاقاتوں کا ذریعہ بنی۔ ایم  اے او کالج کے پروفیسر تحسین فراقی، عطاء الحق قاسمی، حفیظ صدیقی اور اعجاز رضوی سے بھی  اسی موقع پر  سائبان کے منیر نیازی نمبر کے لیے نثری و شعری  تخلیقات حاصل کیں۔ یہی وہ دور تھا جب پہلی مرتبہ میرے ساتھ لاہور یاترا کرنے والے دوستوں شاکر حسین شاکر ،نسیم شاہد اوررضی الدین رضی کی بھی منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، منو بھائی، اصغر ندیم سید، حسن رضوی،اجمل نیازی ،سلمان بٹ اور اظہر جاوید جیسے محبت کرنے والے قلمکاروں سے پہلی  یادگار اور تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں ۔میں جب  بھی لاہور گیا منو بھائی ،منیر نیازی  اور امجد اسلام امجد سے ضرور مل کر آیا۔ وہ کرکٹ کے کھلاڑی اور  دلدادہ   تھے اور شنید ہے کہ قومی ٹیم میں شامل ہونے کے خواہشمند تھے وہ کرکٹ ٹیم میں تو شامل نہ ہو پائے کہ کسی اور منظور نظر کے نام قرعہ فال نکل آ یا تھا لیکن  انہوں نے ادب کے میدان میں خوب نام کمایا اور شاعری میں کئی چوکے اور چھکے لگائے۔
ادب میں منفرد اور  نمایاں مقام نام  اور حیثیت کے باوجود وہ نئے آنے والوں کیلئے اپنے گھر اور دل کے دروازے ہمیشہ وا کیے رکھتے  تھے ۔نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی ہمیشہ  حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتے ،ملکی اور غیر ملکی مشاعروں کی جان ہوتے اور دوست احباب کی محفلیں بھی خوب  لوٹتے ۔وہ  اپنی شاعری اور بذلہ سنجی کی وجہ سے محفلوں کی جان تھے۔ملتانی دوستوں کی فرمائش پر انہوں نے ملتان کی مختلف ادبی تقاریب کی رونق بڑھائی ۔ صرف  ان کی شاعری ہی دلوں کو نہیں چھوتی تھی وہ خود بھی  بہت سے دلوں میں بستے تھے ان کی محبت والی نظموں اور غزلوں کے مصرعے آ ج بھی  پیار کی صدا بن کر گونج رہے ہیں 
میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر  میں ساحلوں کی ہوا 
کیا روز گرجتے ہو برس جائو کسی دن 
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے اور اس جیسی بہت سی خوبصورت اور مرصع شاعری امجد اسلام امجد کو ادبی دنیا میں زندہ جاوید رکھے گی۔  وہ زندگی کے رویوں کی عکاسی کرنے اور زمانے کی قدروں کو اجاگر کرنے والے شاعر کی حیثیت سے بھی یاد رکھے جائیں گے 
 ہر پل دھیان میں بسنے والے لوگ افسانے ہو جاتے ہیں
آنکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خواب پرانے ہو جاتے ہیں
جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں
دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا ہے
خود سے بات کئے بھی اب تو کئی زمانے ہو جاتے ہیں 
4 اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے امجد اسلام امجد 10 فروری 2023ء کو لاہور میں ہی راہی عدم ہوئے۔ انکی موت علمی و ادبی حلقوں کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان اور ایک عہد کا خاتمہ ہے لیکن ان کی شاعری اور ان کی یادوں کے چراغ آنے والوں کے لیے نہ صرف امید کی کرنیں ہیں بلکہ نسل نو کے لیے ایک واضح پیغام بھی ہے کہ زندگی میں جہد مسلسل کا دامن تھامے رکھنا  زندگی کی بے ثباتی  میں امید آس اور خوشیوں کا ایک در ہمیشہ کھلا رہتا ہے جو  کامیابی کا راستہ اور زندگی کا  اثاثہ بھی ہے  ۔

ای پیپر-دی نیشن