سردار صاحبان کا طرزِ حکمرانی
آجکل ہمارے پڑوسی اور ہمارے بھائی سکھ صاحبان اپنے ایک آزاد وطن کے لیے بہت بے چین ہیں۔ مختلف ممالک میں تحریکیں چلا رہے ہیں۔ جلسے جلوس بھی زور و شور سے جاری ہیں اور سب سے اہم یہ کہ آزاد وطن کے لیے ووٹنگ بھی ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں کامیاب کرے لیکن کیا کیا جائے باہمی عداوتوں، سازشوں اور شوق عیّاشی کا جو پاکستانیوں کی طرح سکھ برادری میں بھی عام ہیں اور بدقسمتی سے یہ وہ عادات ہیں جو ملکوں اور قوموں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ آئیں ذرا ان بھائیوں کی پچھلی حکمرانی کا جائزہ لیتے ہیں۔
سکھوں کی تاریخ دراصل ایک آدمی کی تاریخ ہے ۔ جو رنجیت سنگھ کے ساتھ شروع ہوئی اور تقریباً اسی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد کی تاریخ نہ صرف سازشوں سے بھرپور ہے بلکہ قتل و غارت سے سرخ بھی ہے۔ رنجیت سنگھ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے اپنے دور حکومت کے آخری پانچ سالوں میں حکومتی امور پر گرفت قائم نہ رکھ سکا۔ اس لئے سکھ دربار سازشوں اور عیاشیوں کا گڑھ بن گیا جس کا جو دل چاہتا وہ کرتا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ رنجیت سنگھ کی لاتعداد رانیوں نے درباری معاملات میں کھلی دخل اندازی شروع کر دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام کی تمام عشق و عیاشی میںمشغول ہو گئیں۔ کھلے معاشقے چلتے۔ سکینڈل بنتے اور رانیاں خوش ہوتیں جو بھی برائی سوچی جا سکتی ہے وہ وہاں موجود تھی۔ رنجیت سنگھ کی اتنی زیادہ بیویاں اور داشتائیں ہونے کے باوجود اس کی اولاد بہت کم تھی۔ بڑا بیٹا سردار کھڑک سنگھ تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے آخری ایام میں اس کا سب سے بڑا مصاحب جموں کے ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کا بھائی دھیان سنگھ ڈوگرہ تھا۔ اسی کی سازش سے مہاراجہ وقت سے پہلے مر گیا۔ موت کے فوری بعد دھیان سنگھ نے کھڑک سنگھ کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا اور یوں سردار کھڑک سنگھ سکھ سلطنت کا والی بن گیا اور دھیان سنگھ وزیر۔ سردار کھڑک سنگھ باپ کی طرح عورتوں اور شراب کا دلدادہ تھا۔ دربار پہلے ہی عشق معاشقے اور برائیوں کا گڑھ تھا لہٰذا مہاراجہ کھڑک سنگھ نے اس عیاشی میں مزید رنگ ملائے۔ ہر وقت نشہ اور عیاشی میں غرق رہتا۔ ابھی حکومت سنبھالے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ 5 نومبر 1840ء کو ایک داشتہ کے ہاتھوں پی پی کر مر گیا۔ اب سردار کھڑک سنگھ کا نوجوان بیٹا سردار نونہال سنگھ وراثت کا دعویدا ر تھا۔ بہت قابل نوجوان تھا جو امور سلطنت کو اچھی طرح سے سنبھال سکتا تھا لیکن اس کے خلاف جموں کے ڈوگروں گلاب سنگھ، دھیان اور سچیت سنگھ نے سازش کی۔ جب وہ اپنے باپ کی چتا سے واپس آ رہا تھا تو گلاب سنگھ کا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ جونہی محل میں دونوں داخل ہونے لگے محل کا گیٹ دھڑام سے اوپر آ گرا اور دونوں موقع پر مر گئے۔
اب وراثت کا حقدار رنجیت سنگھ کا دوسرا بیٹا شیر سنگھ بنا اور کافی تگ و دو کے بعد سخت نشین ہوا۔ سردار شیر سنگھ بھی عیاش قسم کا انسان تھا۔ حکومتی امور پر کنٹرول نہ تھا۔ فوج تو اچھی تھی لیکن قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تباہ ہو گئی۔ فوج نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک سینئر انگریز آفیسر کو بیدردی سے قتل کر دیا اور باقی انگریز آفیسرز کو نکل جانے کا حکم دیا۔ اس سے انگریز تو ناراض تھے ہی لیکن سکھ فوج کا بھی بھٹہ بیٹھ گیا۔ پھر سکھوں نے فوج میں ایک نیا تجربہ کیا۔ ہر یونٹ میں پنچائیت قائم کی۔ ہر یونٹ پنچائیت کے پانچ آدمی منتخب کرتی اور یہی پانچ لوگ مل کر یونٹ اور فوج چلاتے اور یہ پانچ لوگ کبھی بھی کسی بات پر آپس میں متفق نہ ہوتے لہٰذا فوج کا جو حشر ہوا وہ ایک علیحدہ تکلیف دہ کہانی ہے۔ شیر سنگھ کے دور حکومت میں قتل و غارت کا سلسلہ تیزی سے آ گے بڑھا۔ سب سے پہلے کشمیر کا گورنر قتل ہوا۔ اس کے بعد پشاور کے گورنر جنرل اوتیا بل کی باری تھی اس نے کابل کی طرف بھاگ کر جان بچائی۔ سردار کھڑک سنگھ کی بیوہ مائی چاند کور کو نوکرانیوں نے ڈنڈے مار مار کر مار دیا۔ اسی دوران پنجاب کی ایک بااثر فیملی ’’سندھن والا‘‘ کسی وجہ سے ناراض ہو گئی لہٰذا اس فیملی کے سردار اجیت سنگھ نے جو کہ شیر سنگھ کا دوست اور مصاحب تھا مہاراجہ کے خلاف سازش کی اور اُسے گولی مار دی۔ عین اس وقت سندھن والا فیملی کے سردار لہنہ سنگھ نے مہاراجہ شیر سنگھ کے بیٹے راجہ پرتاب سنگھ کو مار دیا۔ اس کے ساتھ ہی رنجیت سنگھ کی اصل اولاد کے تمام مرد حضرات ختم ہو گئے۔ اس سازش میں ڈوگرہ وزیر اعظم دھیان سنگھ بھی شریک تھا۔ اس قتل کے بعد سردار اجیت سنگھ، سردار لہنہ سنگھ اور دھیان سنگھ تینوں مل کر دربار کی طرف نیا مہاراجہ چننے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں اجیت سنگھ نے دھیان سنگھ کو قتل کر دیا لیکن غلطی سے اس کے بیٹے ہیرا سنگھ کو زندہ چھوڑ دیا۔ دھیان سنگھ بطور وزیر فوج کے قریب تھا۔ اب ہیرا سنگھ فوج کے پاس گیا اور باپ کی موت کا بدلہ لینے کی درخواست کی لہٰذا فوج دربار میں آئی اور سردار اجیت سنگھ اور سردار لہنہ سنگھ کو قتل کر دیا۔ اب رنجیت سنگھ کے خاندان میں صرف ایک چھوٹا بچہ دلیپ سنگھ رہ گیا تھا جو اکثر مورخین کے مطابق رانی جنداں کے بطن سے ناجائز اولاد تھی۔ بہرحال چالاک ہیرا سنگھ نے اسے مہاراجہ بنا کر خود وزیر بن گیا۔
ہیرا سنگھ سمجھدار آدمی تھا اس نے فوج سے اچھے تعلقات رکھنے کے لئے فوج کی اڑھائی روپے فی جوان کے حساب سے تنخواہ بڑھا دی جو اس زمانے کے حساب سے کافی زیادہ تھی۔ اسی دوران جموں کا ڈوگرہ راجہ اور ہیرا سنگھ کے چچا سچیت سنگھ نے لاہور پر چڑھائی کر دی۔ لاہور کے نزدیک اس دستے کو شکست ہوئی اور سچیت سنگھ قتل کر دیا گیا۔ اس دوران رنجیت سنگھ کے دو ناجائز بیٹوں سردار کشمیرا سنگھ اور سردار پشورا سنگھ نے بغاوت کر دی۔ سندھن والا فیملی کا آخری مرد اوتار سنگھ تھا لہٰذا وہ بھی کشمیرا سنگھ کے ساتھ بغاوت میں شامل ہو گیا۔ فوج نے ان تینوں باغیوں کا پیچھا کر کے باری باری مار دیا۔
اب ہیرا سنگھ کی باری تھی۔ اُسے رانی جنداں نے ایک سازش کے ذریعے اپنے بھائی جواہر سنگھ سے مروا دیا۔ جواہر سنگھ کو فوج نے قتل کر دیا۔ جس پر رانی جنداں کو بہت دکھ ہوا۔ جواہر سنگھ کی چتا میں رنجیت سنگھ کی طرح اس کی بہت سی بیویوں اور داشتائوں کو بھی زبردستی زندہ جلا دیا گیا۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کی وجہ سے فوج کا کنٹرول رانی جنداں کے ہاتھ میں آ گیا۔ اس نے فوج کے ساتھ سازش کر کے اپنے ایک عاشق راجہ لال سنگھ کو وزیر بنا دیا اور دوسرے دوست سردار تیج سنگھ کو فوج کا سربراہ۔ اب رانی جنداں نے اپنا کھیل شروع کیا جس میں پہلی چیز فوج سے بدلہ لینا تھا۔ اس دور میں انگریز وہ واحد طاقت تھی جو سکھ فوج کو شکست دے سکتی تھی لہٰذا انگریزوں کے خلاف ستلج دوآب میں لڑائی شروع کر دی۔ تین مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں جنگیں ہوئیں۔ جب بھی سکھ فوج جیت کے نزدیک آتی سکھ جرنیل فوج کو واپس بلا لیتے اور یوں فتح شکست میں بدل جاتی۔ آخری جنگ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ برطانوی فوج شکست کھا کر میدان سے بھاگنے کا سوچ رہی تھی کہ سکھ فوج کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا۔ اسلحے کے بکسوں میں سرسوں بھرا ہوا نکلا اور سکھ فوج میدان سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ نتیجتاً 1846ء میں پنجاب کو انگریزوں نے انگریزی حکومت میں شامل کر لیا اور اس کے ساتھ ہی سکھ حکمرانی اپنے اختتام کو پہنچی۔