• news

حکومت لاء افسر برطرف نہ کر سکے تو جزوی معطل ہوکر رہ جائے گی: ہائیکورٹ 


لاہور (سپیشل رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور لاء  افسروں کی برطرفیوں کے کیس کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے وکیل صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل دیئے اور موقف اپنایا کہ نگران حکومت کو لاء افسروں کی برطرفیوں کا کوئی آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔ نگران حکومت کا کام انتخابات کرانے کیلئے الیکشن کمشن کو معاونت فراہم کرنا ہے۔ قانون کے تحت منتخب حکومت کے تعینات کردہ لاء  افسروں کو نگران حکومت برطرف نہیں کرسکتی  ہے۔ نگران حکومت نے سیاسی مفادات کیلئے لاء  افسروں کو برطرف کر کے غیرقانونی اقدام کیا ہے۔ دوران سماعت  جسٹس انوار حسین نے استفسار کیا کہ کیا لاء افسروں کاکوئی ٹینیور ہوتا ہے جس پر عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ لاء  افسروں کا کوئی ٹینیور نہیں ہوتا جس  پر عدالت نے کہا کہ اگر ان کا ٹینیور نہیں ہوتا تو انہیں برطرف کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت لاء افسروں کو برطرف نہ کر سکے تو پھر بالکل جزوی معطل ہوکر رہ جائے گی۔ عدالتوں کے فیصلوں کی موجودگی کے باوجود لاء افسروں کی برطرفی کا قانون موجود ہے۔ عدالت کے فیصلے میں کہاں لکھا گیا ہے کہ برطرفی اور تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس فیصلے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ نگران حکومت مختصر مدت کیلئے نئی تعیناتیاں کر سکتی ہے جس پر عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسی تعیناتیاں صرف مفاد عامہ میں ہی کی جاسکتی ہیں آئین میں حکومت کی تعریف واضع نہیںہے خواجہ طارق رحیم والا واحد فیصلہ ہے جس میں حکومت کا مفہوم واضح کیا گیا ہے جن نئے لاء افسروں کو تعینات کیا گیا یہی لاء افسر حمزہ شہباز کی سیاسی حکومت میں تعینات کئے گئے۔ نگران حکومت میں تو بالکل غیرجانبدار لاء افسران ہونا آئینی تقاضا ہے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ہمارے پاس چالیس سے زائد ججز ہیں مگر نوے لاء  افسران کے باوجود مزید تعینات کر دئیے گئے ہیں یہ تو سرکاری خزانے پر بھی بوجھ ہے۔ آپ نے توایڈووکیٹ جنرل آفس کو لاء  افسروں سے بھر دیا ہے۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ یہ بھرتیاں غلط ہوئیں یا نہیں سیاسی حکومتیں جواب دہ ہیں۔ خواجہ آصف والے فیصلے میں واضح ہے کہ نگران حکومت صرف روزانہ کی بنیاد پر ہی امور چلاسکتی ہے، عدالت نے کہا کہ اگر لاء افسر  بھی عدالت میں کوئی پالیسی بیان دے دیتے ہیں تو پھر کیا بنے گا، جس پر عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا کہ لاء  افسران خود سے کوئی بیان نہیں دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو عدالت میں ججز موجود ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر انتخابات سے متعلق پٹیشن آجاتی ہے ایسی صورتحال میں سابقہ دور کے وکلاء افسران انصاف کی فراہمی کیلئے کیسے معاونت کریں گے کسی خاص کیس میں نگران حکومت سابقہ لاء افسروں کے پیش ہونے پر اعتراض کرتی ہے تو کیا ہو گا کیا نگران حکومت ایسے سارے کیسوں میں نجی وکلاء کی خدمات لے گی۔  عابد زبیری نے کہا کہ ہمیں توقانون کے مطابق اصولوں پرکھڑے ہونا ہے عدالت نے کہا کہ کیا اے جی آفس کیلئے نشستیں مختص ہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ97لاء  افسروں کی نشستیں مختص ہیں 56لاء  افسران نئے آنے سے تعداد مختص نشستوں سے بڑھ چکی ہیں۔ آئین میں نگران حکومت کا نہیں بلکہ نگران کابینہ کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ تعیناتیاں وزیراعلی کا استحقاق صرف مفاد عامہ میں ہی ہو سکتی ہیں۔ عدالت نے حکومت پنجاب کے وکیل منصور اعوان کو دلائل کیلئے طلب کر لیا ہے ۔

ای پیپر-دی نیشن