ویلنٹائن ڈے
تحریر :رانا فرحان
ranafarhan.reporter@gmail.com
اراکین پارلیمنٹ کی آراء
معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے کر اسے بدنام اور غلط صورتیں پیدا کی گئیں
مغرب کی اندھی تقلید نوجوان نسل کو معاشرتی اقدار سے بھٹکا سکتی ہے
محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اسی طرح معاشرہ میں ہر فرد اس کامتلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہرمتلاشی کی سوچ اورمحبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام محبت اوراخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت،پیار اوراخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کوغلط رنگ دے کرمحبت کے لفظ کو بدنام کردیا گیا او ر معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں پید ہو چکی ہیں اسکی ایک مثال عالمی سطح پر ویلنٹائن ڈے جیسی خرافات کا منایا جانا ہے ہر سال 14فروری کو عالمی یومِ محبت کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منصوب کرکے دنیا بھر میںمنایا جاتاہے اور پاکستان میں بھی اس خرافات نے جنم لیا ہے تاہم معاشرتی اور اخلاقی سطح پر ہمارے معاشرے میں اسکی بھرپورحوصلہ شکنی کی گئی ہے اور حکومتی سطح پر بھی اسے معاشرتی اقدار کے منافی قراردیا گیا ہے اسکو منائے جانے کیخلاف عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں تاہم مغرب کی اندھی تقلید میں ہماری نوجوان نسل بھی اس معاشرتی برئے میں حصہ دار بننے کیلئے کوشاں رہتی ہے ہر سال فروری کے مہینے میں جوں ہی چودہ فروری کا دن قریب آتا ہے بازاروں میں سرخ رنگ کے دل نما تحائف،سرخ گلاب گلدستے اور اسطرح کی چیزوں کی سرعام فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دوکانوں پر اکثرو بیشتر ان دنوں میں منچلے لڑکے اور لڑکیاں ہی دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں کیونکہ اس د ن جوبھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہو اسے سرخ پھولوں کا گلدستہ یا سرخ دل نماتحفہ پیش کیا جاتا ہے اور اس دن پرخاص طور پر اہتمام کیساتھ سرخ رنگ کے لباس کو بھی زیب تن کیا جاتا ہے اول تو اس دن کومغرب کی تقلید میں منانا ناجائز ہے ہماری مذہب اسکی اجازت دیتا اور نہ ہی ہماری معاشرتی اقدار اسکی حمایت کرتی ہیں اور یہ جوز پیش کرنا کہ محبت کا دن ہے کسی سے پیار کا اظہار کرنے میں کیا برائی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر دن محبت کا ہے ہمارا دین اسلام اوراسلامی معاشرے کی خصوصیات ہی پیار محبت اتفاق واتحاد پر مبنی ہیںاور بالخصوس والدین بہن بھائی رشتے دار عزیز اقارب محبت اور توجہ کے اصل مستحق ہیںاس ضمن میںاراکین پارلیمنٹ خواتین کی مختلف آراء ہیں پارلیمانی سیکرٹری تاندلیانوالہ (فیصل آباد)سے مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی عائشہ رجب بلوچ نے ’’روزنامہ نوائے وقت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام اور اسلامی معاشرے کا ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ نامی خرافات سے کچھ لینا دینا نہیں ہمارا معاشرہ اسکا ہزگز متحمل نہیں ہوسکتامحبت کے نام پر مادر پدر آزاد ی کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا والدین فیملی بہن بھائیوں کیساتھ محبت ہماری روایات کا حصہ ہے اور اس کیلئے کسی ایک دن کو مختص کرنا درست نہیں غیر محرم لڑکے لڑکیوں کا ایک دوسرے کیساتھ کھم کھلا اظہار محبت اور میل جول تو کسی صورت قابل برداشت ہے نہ ہی معاشرے کیلئے بہتر ہے مسلم لیگ (ن) کی لاہور سے رکن قومی اسمبلی شکیلہ لقمان نے ’’روزنامہ نوائے وقت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے میں پیار محبت پروان چڑھانے کیلئے اس دن پھول پیش کرنا اورمحبت کے اظہار میں کوئی قباحت نہیں ہے ہمارا دین بھی محبت پیار کا درس دیتا ہے محبت کا ا ظہار کوئی بری بات نہیں پھول تحائف دینے سے ایک دوسرے کیساتھ محبت بڑھتی ہے والدین بہن بھائیوں رشتے داروں کیساتھ بھی محبت کا اظہار کرکے اس دن کو منایا جاتا ہے اور اس دن ان سب کیساتھ بھی ا س دن کو ملایا جاسکتا ہے شکیلہ لقمان نے کہا کہ میں جب امریکہمیں رہائش پذیر تھی تو میرے بچے مجھے میری شوہر اپنی بیویوں بہنوں اور بھائیوں کو بھی پھول پیش کرتے تھے جوکہ محبت کا اظہار ہے اس دن کو محبت کے فروغ کیلئے منا لینا میں کوئی پابندی نہیں اور نہ ہی دین اسلام پیار محبت سے منع کرتا ہے مسلم لیگ ق کی رکن قومی اسمبلی مسز فرخ خان نے’’روزنامہ نوائے وقت‘‘کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویلنتائن ڈے کا ہمارے معاشرے کیساتھ کوئی جوڑ نہیں لڑکے لڑکیوں کا خود سر ہو کر ایک دوسرے کیساتھ اظہار محبت پھولوںاور تحائف کا تبادلہ معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کا باعث بنے گا اسلئے مغرب کی تقلید کرتے ہوئے اس دن کو منانا درست نہیں ہے والدین بہن بھائی رشتے داروں کیساتھ میل ملاپ اور معاملات کی بہتری کیطرف توجہ دینا چاہیے بجائے ان خرافات کواپنا کرہم اپنے معاشرے کو اخلاقی پستی کا شکار کریںمسز فرخ خان نے کہا ہے کہ ’’ویلنٹائن‘‘ مغرب کا تہوار ہے مشرقی معاشرہ اسکا متحمل نہیںہوسکتا اسے منانے اور ان کو اپنانے سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوگا جس سے معاشرے میں بے چینی اور نقص امن کا خطرہ بڑے گا ٰلہٰذا ایسی خرافات کی نفی اور حوصلہ شکنی ہی ہمارے معاشرے اور مستقبل کیلئے بہتر ہے۔