• news

آئی ایم ایف پروگرام بحالی: کچھ عوام کا بھی خیال کریں


حکومت اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضہ پروگرام کی بحالی کے بے حال ہوئی جارہی ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ کسی بھی طرح آئی ایم ایف کو اس بات پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ پاکستان کو مزید قرضہ دیدے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یہی ایک راستہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لیا جائے۔ یہ آئی ایم ایف کا بائیسواں قرضہ پروگرام ہے جس کے تحت پاکستان اس سے رقم لے رہا ہے۔ حکمران عوام کو یہ نہیں بتارہے کہ گزشتہ ساڑھے چھے دہائیوں سے ہم مسلسل آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لیے جارہے ہیں تو معیشت آج بھی زوال آمادہ کیوں ہے؟ قوم کو یہ بھی نہیں بتایا جارہا ہے کہ قرض کی مد میں لی جانے والی رقم کتنی کتنی اور کہاں کہاں خرچ ہوتی ہے اور قرض لیتے ہوئے اس کی واپسی کے لیے کوئی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے یا بس کشکول آئی ایم ایف کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس کی مرضی وہ اس میں جتنے چاہے سکے ڈال دے اور بدلے میں جو شرائط چاہے ہم سے منوا لے۔
اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این ڈی پی کہتا ہے کہ پاکستان کی حکومت ہر سال تقریباً ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات اشرافیہ کو دیتی ہے۔ یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرضے لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کا علاج کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے خصوصی طور پر بھجوائے گئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار عوام پر تو 170 ارب روپے کے نئے محصولات لگانے کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن انھوں نے اب تک قوم کو یہ نہیں بتایا کہ اشرافیہ بھی ان حالات میں کوئی قربانی دے گی یا نہیں۔ ویسے اگر یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق جمع تفریق کر کے دیکھا جائے تو 170 ارب روپے کی رقم اشرافیہ کو دی جانے والی تقریباً دو ہفتے کی مراعات و سہولیات کے مساوی بنتی ہے۔ کیا حکمران قوم کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ آخر عام آدمی ہی قربانی کیوں دے اور اشرافیہ کی مراعات و سہولیات میں کمی کر کے یہ رقم کیوں حاصل نہیں کی جاسکتی؟
 آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے جو شرائط طے ہوئی ہیں ان پر عمل درآمد تیز کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجلی مزید مہنگی کی جائے گی جبکہ سبسڈی ختم کرنے کا پلان بھی منظور کر لیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایک سرکولیشن کے ذریعے نظرثانی گردشی قرضہ مینجمنٹ پلان کی بھی منظوری دی ہے۔ بجلی مہنگی اور سبسڈی ختم کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا گیا ہے اس کے مطابق جون تک گھریلو صارفین کے لیے بجلی 7 روپے فی یونٹ مہنگی ہوگی اور مارچ 2023ءسے برآمدی شعبے اور کسانوں کے لیے بجلی پر سبسڈی ختم ہوگی۔ دنیا بھر میں برآمدی شعبے اور کسانوں کو سہولیات مہیا کی جاتی ہیں کیونکہ جہاں اول الذکر کاروبار اور ملکی مصنوعات کے فروغ کے علاوہ زرِ مبادلہ اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے تو ثانی الذکر اناج وغیرہ کے ذریعے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ذمہ داری اٹھاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے، لہٰذا یہاں ان دونوں شعبوں کے لیے سبسڈی ختم کر کے ان کا بوجھ بڑھایا جارہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ اس منصوبے کے تحت جون 2023ءتک بجلی صارفین سے 450 ارب روپے ریکور کیے جائیں گے اور برآمدی شعبے اور کسانوں کے لیے سبسڈی ختم ہونے سے 63 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ اسی طرح برآمد کنندگان کے لیے بجلی پر سبسڈی ختم ہونے سے 51 ارب روپے جبکہ کسان پیکیج کے تحت بجلی پر سبسڈی ختم ہونے سے 14 ارب روپے کا حصول ہوگا۔ گو کہ وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن نے سرکولیشن کے ذریعے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کسی سمری کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری نہیں لی گئی اور نہ ہی کوئی سمری منظوری کے لیے بھیجی گئی ہے لیکن ماضی میں بھی ایسا ہو چکا ہے کہ ایک طرف وفاقی وزراءنے کسی بات کی تردید کی اور دوسری جانب اس معاملے کے وقوع پذیر ہونے کی اطلاع بھی موصول ہوگئی۔ ادھر، مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مہنگائی سے ریلیف کا امکان نہیں۔
ملک اس وقت یقینا مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور معیشت کے استحکام کے لیے حکومت کو کچھ سخت اور کڑوے فیصلے بھی کرنے پڑیں گے لیکن ان فیصلوں کا سارا بوجھ عام آدمی ہی کیوں اٹھائے؟ عوام تو پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے مسلسل پریشانیوں کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں، ایسے میں ان سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرنا سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بار اشرافیہ سے قربانی لینے کے منصوبے پر غور کرے۔ عوام پہلے ہی حکمران اتحاد کے ان فیصلوں سے سخت نالاں ہیں جن کی وجہ سے گزشتہ دس مہینے کے دوران مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر کی طرف گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مزید تلخ فیصلے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں اور عوام کے درمیان نہ ختم ہونے والی خلیج کا باعث بن جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن