ایماندار وزیراعظم والے ریمارکس پر جو رپورٹ ہوا ، تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں : چیف جسٹس
اسلام آباد (وقائع نگار) چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا صرف ایک وزیراعظم ایماندار والے ریمارکس پر ردعمل سامنے آگیا۔ اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے ایماندار وزیراعظم والے ریمارکس کا تذکرہ کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو رپورٹ ہوا اس پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان شہزاد عطا الہی نے عدالتی سوالات پر دلائل دیئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی تنخواہوں سے متعلق سوال کیا تھا، قومی اسمبلی کے ایک ممبر کی مجموعی تنخواہ ایک لاکھ 88 ہزار روپے ہے، پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی نے اپریل سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی، پی ٹی آئی کے ممبران نے سفری اخراجات اور لاجز سمیت دیگر مراعات لیں، قومی اسمبلی ان معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوشل میڈیا پر عدالتی ریمارکس کے متعلق ایک خط لکھا ہے، سوشل میڈیا پر ہونے والی غلط رپورٹنگ پر بات کرنا چاہتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور آپ کی کاوش کو سراہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں لیکن یہ جانتے ہوئے کہ تنقید کا اگلا ہدف بن سکتا ہوں جو مجھے مناسب لگا میں نے کیا، سپریم کورٹ میڈیا رپورٹنگ سے متعلق گائیڈ لائنز دو فیصلوں میں جاری کر چکی ہے، مسئلہ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا نہیں ہے مسئلہ سوشل میڈیا کا ہے جس پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اسے فیک نیوز نہیں کہوں گا۔ ایک ایجنڈے کی تحت سوشل میڈیا پر اداروں کو اداروں کے خلاف لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے، عدالت اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سمجھ داری اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے، عدالتی کارروائی سے کچھ غلط معلومات منسوب کی گئیں، جو رپورٹ ہوا وہ نہ صرف سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا بلکہ جانب دارانہ بھی تھا، جو رپورٹ ہوا اس پر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کے دوستوں کو عدالت کی طرف سے رد عمل نہ آنے کو احترام سے دیکھنا چاہیے، سپریم کورٹ کا 2019ء کا فیصلہ میڈیا کنٹرول کی بات کرتا ہے، میں میڈیا کنٹرول پر نہیں، باہمی احترام پر یقین رکھتا ہوں۔ بعدازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آ گئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخدوم صاحب یاددہانی کے لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ کے دلائل میں 11 سماعتیں گزر گئیں۔ اس پر مخدوم علی خان بولے کہ دوسرے جانب کے دلائل میں 6 ماہ لگے تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسری طرف کا ریکارڈ مت توڑیے گا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی معاملات میں برطانیہ سمیت ملکوں میں عدالتی کارروائی لائیو کیمروں میں ریکارڈ ہوتی ہے، لائیو سٹریمنگ سے آفیشل ریکارڈ رہتا ہے اور ابہام کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کا معاملہ ہمارے پاس زیر التوا ہے، جلد ہی فل کورٹ میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا معاملہ رکھیں گے۔ وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر 51 فیصد لوگ ووٹ ہی نہ ڈالیں تو بھی اسمبلی میں عوامی نمائندگی ہوگی، جمہوریت ہے ہی نمبرز گیم۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی سے استعفے کب دیے تھے؟ مخدوم علی خان بولے کہ تحریک انصاف کے ایم این ایز نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے استعفے قسطوں میں منظور کیے گئے، استعفوں کی تصدیق کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ استعفے منظور ہوچکے تو منظوری کے خلاف پی ٹی آئی عدالت چلی گئی، لاہور ہائی کورٹ نے 44 استعفوں کی منظوری پر حکم امتناع دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے استعفوں کی منظوری کا سپیکر کا حکم معطل نہیں کیا، ہائی کورٹ کے مطابق سپیکر کا فیصلہ درخواست کے ساتھ لگایا ہی نہیں گیا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے 20 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے وہ اسمبلی کا حصہ ہیں، امریکی تاریخ دان نے کہا تھا کہ سیاسی سوال کبھی قانونی سوال نہیں بن سکتا، امریکی تاریخ دان کی بات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں لگتی، امریکی سپریم کورٹ بھی کہہ چکی کہ عدالت سیاسی سوالات میں نہیں پڑے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی حقوق اور آئینی سوالات پر فیصلے ہوتے رہے، سیاسی سوال قانونی تب بنتا ہے جب سیاسی ادارے کمزور ہوجائیں۔ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی آرڈیننس لاکر نیب ترامیم ڈیزائن کی تھیں، اپنی ہی ڈیزائن کردہ ترامیم چیلنج کرنا بدنیتی ہے، سپریم کورٹ وطن پارٹی اور طاہرالقادری کیس نیت اچھی نہ ہونے پر خارج کر چکی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفصیل دیں آئینی خلاف ورزیوں پر نیب قانون کی شقوں کو سپریم کورٹ نے کب کب کالعدم قرار دیا؟۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس/ ریمارکس
اسلام آباد(وقائع نگار)عدالت عظمیٰ نے کرپشن کے ملزم کی ضمانت سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ نیب کے نئے قانون میں کچھ کوتاہیاں ہیں جسے دیکھ رہے ہیں ۔منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 23 کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم نواب خان کی ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی ۔ دوران سماعت نیب کی طرف سے اسپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ نیب آرڈیننس ترمیمی ایکٹ 2022کے اجرا کے بعد زیر غور کیس غیر موئثر ہوچکا ہے ان کا کہنا تھا کہ نئے نیب قانون کے بعد 23 کروڑ روپے کی کرپشن کا کیس نیب کے دائرہ اختیار سے نکل گیا،نئے قانون کے تحت صرف پچاس کروڑ روپے کی کرپشن نیب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا ملزم پر 23 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے ،کیس پچاس کروڑ روپے کی کرپشن کا نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے دائرہ اختیار سے نکلنے والے مقدمات ختم ہوگئے؟۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب مقدمات واپس نہیں لے رہا ،عدالتیں کیسز واپس کررہی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نئینیب قانون میں یہ نہیں لکھا کہ مقدمات کہاں بھیجنے ہیں؟۔چیف جسٹس نے نئے نیب قانون میں کچھ کوتاہیاں ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریما رکس دیے کہ یہاں نیب کی بھی بہت نااہلی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے ملزم کی ضمانت کی منسوخی کے لیے دائر نیب کی درخواست غیر موئثر قرار دے کر کیس نمٹا دیا ۔