نیب ترامیم نے زیر التوا مقدمات کا دروازہ بند کر دیا ، بنیا دی حقوق کیلئے گڈگورننس ضروری : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم نے زیر التوا مقدمات کا دروازہ بند کردیا ہے۔ قدیم معاشرے میں زندہ رہنے کا حق محض روٹی، کپڑا اور مکان سے پورا ہوتا ہوگا، آج کے زمانے میں زندہ رہنے کیلئے تعلیم اور صحت سمیت سہولیات لازم ہیں، کرپشن سے زندہ رہنے کا حق متاثر ہوا ہے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کیس کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ عوامی اہمیت کے مقدمات کے علاوہ براہ راست دائر مقدمات نہیں سن سکتی، کسی شخص کی ذاتی شکایات پر سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سن کر فیصلہ نہیں کرسکتی، آئین میں براہ راست مقدمہ دائر کرنے کے لیے ہائیکورٹ کا فورم موجود ہے، آئین میں سپریم کورٹ کے لیے بھی مقدمات سننے کا واضح طریقہ کار درج ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بہت سے عوامی اہمیت کے مقدمات میں سپریم کورٹ براہ راست کیسز سنتی رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا اگر سپریم کورٹ براہ راست مقدمات سننا شروع کردے گی تو ہائیکورٹ جانے کا آئینی حق ختم ہو جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب ترامیم کیس میں اب تک تو بنیادی حقوق کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا عدالت خود حکومت کے اختیارات استعمال نہیں کرنا چاہتی، نئے نیب قانون میں واپس ہونے والے مقدمات کے مستقبل کا کوئی طریقہ کار درج نہیں، احتساب عدالتوں سے واپس ہونے والے سینکڑوں مقدمات کا کچھ پتہ نہیں کہاں جائیں گے؟۔ مخدوم علی خان نے کہا عدالت جہاں حکم جاری کرے گی وہاں بھیج دیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت کیوں حکم جاری کرے؟۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے جواب دیا مقدمات وہاں ہی چلیں گے جہاں نیب سے پہلے پچاس سال چلتے رہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا نئے نیب قانون میں باریکی سے ہر نقطے اور لفظ میں تبدیلی کی گئی، اتنا بڑا ابہام کیوں چھوڑا گیا؟۔ چیف جسٹس بولے 8 ماہ ہوگئے نیب مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہورہے اور کسی دوسرے فورم پر نہیں بھیجے گئے۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، کوئی بھی وجہ بنا کر مداخلت نہیں کی جاسکتی، پارلیمنٹ نیب کا مکمل قانون بھی ختم کرسکتی ہے، پاکستان پچاس سال نیب قانون کے بغیر بھی چلتا رہا، سپریم کورٹ کو پہلے دیکھنا ہو گا کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، آرٹیکل 184(3) کے استعمال کیلئے بنیادی حقوق کی براہ راست خلاف ورزی کا تعین ضروری ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سپریم کورٹ کے پاس کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے وسیع تر اختیار موجود ہیں۔ بینچ کے رکن جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ کیا آرٹیکل 184(3) کے استعمال سے قبل درخواست گزار کو ہائیکورٹ میں جانا چاہیے تھا؟۔ نیب کیس کو سنتے ہوئے کافی وقت گزر چکا، اب تک نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، اگر بنیادی حقوق پر عدالت کو مطمئن نہیں کیا گیا تو مفاد عامہ کا سوال تو بہت بعد میں آئے گا۔ حکومتی وکیل نے کہا حکومت ایسے کوئی قوانین نہیں بنا سکتی جو بنیادی حقوق سے منافی ہوں۔ دوران سماعت ایک موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ختم کر دے تو درخواستگزار اس کی بحالی کے لیے آ سکتا ہے؟۔ حکومتی وکیل نے جواب دیا پارلیمنٹ نیب کو ختم کر دے تو اس کی بحالی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اگر عدالت قانون سازی کالعدم یا بحال کرنے لگی تو پارلیمنٹ غیر فعال ہو جائے گا۔ اگر نیب ترامیم اسلامی اصولوں کے منافی ہیں تو اس کا تعین وفاقی شرعی عدالت نے کرنا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے حکومتی وکیل سے پوچھا اگر وفاقی شرعی عدالت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے تو پھر کیا ہو گا؟۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا طاقت اور اختیار میں واضح فرق ہے، عدالت قانون کو غلط قرار دے کر واپس بھیج سکتی ہے ختم نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کرپشن کا تعلق قانون کے نفاذ، صاف شفاف حکومت اور سماجی نظام سے ہے، بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے گڈ گورننس ضروری ہے، گڈ گورننس کا مطلب ہے کہ ملکی قوانین ہر شخص پر واضح ہونے چاہیے ہیں، اگر حکومت ٹھیک ہو گی تو رات کو باہر نکلتے کوئی خوفزدہ نہیں ہو گا، اگر گڈ گورننس ہو گی تو کسی کو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار ساتھ لے کر نہیں گھومنے پڑیں گے، وٹس ایپ پر میسجز سے لوگوں کے ڈیجیٹل اکائونٹس سے پیسے ہتھیائے جا رہے ہیں، اگر سسٹم ایماندار ہو گا تو کسی کو سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہو گی، آئین پاکستان کے تحت زندہ رہنے کے حق کی تعمیل لازم ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ قدیم معاشرے میں زندہ رہنے کا حق محض روٹی، کپڑا اور مکان سے پورا ہوتا ہوگا، آج کے زمانے میں زندہ رہنے کیلئے تعلیم اور صحت سمیت سہولیات لازم ہیں، کرپشن سے زندہ رہنے کا حق متاثر ہوا ہے، آج دو اغوا شدہ بچیاں چھ سال بعد بازیاب ہوئیں کیونکہ کوئی نظام ہی نہیں ہے، پولیس کو بچیوں کی بازیابی کیلئے انٹیلیجنس ایجنسیوں کا سہارا لینا پڑا، پولیس میں صلاحیت کا فقدان اصل میں شہریوں کے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی ہے، واضح کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ حکومت کرنا چاہتی ہے نہ ہی کرے گی، کئی سو نیب کیسز عدالتوں سے واپس ہو رہے ہیں، نیب ترامیم نے زیر التوا کیسز کا دروازہ بند کر دیا ہے، نیب ترامیم کو 8 ماہ ہوگئے مگر ان کے باقاعدہ نفاذ یا کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار نہیں بنایا جا سکا۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے حکومت کے پاس اگر نیب قانون میں الفاظ بدلنے کا وقت ہے تو کیسز کی منتقلی کا طریقہ کار بنانے کا کیوں نہیں ہے؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر احتساب عدالت کے منتقل کیسز کو اینٹی کرپشن دائرہ اختیار سے خارج قرار دے تو کیا ہوگا؟۔ حکومتی وکیل نے کہا نیب قانون سے پہلے بھی 50 سال ملک میں کرپشن کے کیسز نمٹائے گئے تھے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت آج تک ملتوی کردی۔