بلّیوں کا جزیرہ
ایک نہیں ، دو دو سبز قدم منی بجٹ اکٹھے نازل فرمائے گئے ہیں۔ ایک میں تیل 22 روپے لٹر مہنگا کیا گیا ہے، دوسرے میں 170 ارب روپے کے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ پٹرول خیر سے 270 اور ڈیزل 200 روپے کا ہو گیا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے اپنے دور وزارت میں اطلاع دی تھی کہ تیل 300 روپے لٹر ہو جائے گا۔ یہ اطلاع انہوں نے اپنی حکومت کے دور کے حوالے سے دی تھی لیکن تب وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا یہ عزم ان کے ہاتھوں نہیں، شہباز کے دور میں پورا ہو گا۔
170 ارب کے ٹیکس بھی لگ گئے۔ ٹیکس کس شے کا نام ہے؟۔ ہر ایک مائع کا نام ہے اور ہر مائع کی طرح اس کی فطرت بھی اوپر سے نشیب کو بہنا ہے۔ نشیب کے معنے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ سمیت ملک کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی نشیب میں رہتی ہے۔ باقی بقدر ہمت بلند، مزید بلند، مزید ترین بلند مقام کی باسی ہے۔ اس بلند پایہ مخلوق پر ترس آتا ہے ، بے چاروں نے کبھی ٹیکس کا دیدار تک نہیں کیا، بس نام ہی سنا ہے، وہ بھی کبھی کبھار۔ ہم نشیب زادوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ ’’مشکل فیصلے‘‘ یہ اوپر والی مخلوق کرتی ہے، ان پر عمل کا واحد ذمہ دار ہم ہیں۔
_______
حکومت نے بتایا ہے کہ اس نے -25 لگژری اشیاء پر ٹیکس لگائے ہیں۔ میرے خیال میں ان لگژری آئٹمز کی تعداد 25 سے کہیں زیادہ ہے، حکومت نے ازراہِ کسر نفسی کم بتائی ہے۔ 50 کے نام تو میں ابھی کھڑے کھڑے لے سکتا ہوں جیسے کہ روٹی، چائے، دال، لون مرچ، گھی، کاپی، کتاب ، پنسل، درد بخار کی گولی، کچھا بنیان، ہوائی چپل اور __ خیر جانے دیجئے!
_______
حافظ حمد اللہ نے منی بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے عمران بجٹ کا نام دینا چاہیے کیونکہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، عمران ہی کے دم سے ہو رہا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بھی کچھ ایسا ہی کہا جا رہا تھا۔ ایک مہمان نے کہا، پاکستان نے 72 سال میں جتنا قرضہ لیا، اس کا 75 فیصد صرف عمران نے لیا اسی لیے یہ سب مہنگائی ہے۔ ان مہمان نے سوال کیا کہ یہ 75 فیصد قرضہ لیا تو کیا لیکن لگایا کہاں، کوئی تو بتائے۔ دوسرے مہمان بھی بیٹھے تھے ۔ کسی نے سوال کا جواب نہیں دیا۔
لگ بھگ 55 ارب ڈالر قرضہ عمران نے لیا، کہا جاتا ہے کہ سب لنگر خانوں پر لگا دیا ۔ یہاں نکتے کی بات نہ سمجھے تو پھر کیا سمجھے اور نکتے کی بات یہ ہے کہ لنگر خانوں کا معنی بہت وسیع ہے۔ اسے سڑک کنارے لگے ٹینٹ شامیانے کے تلے بننے والی دال روٹی تک محدود نہ کیجئے بات سمجھ میں آ گئی ؟
_______
اچھی بات ہے کہ 85 رکنی کابینہ میں سے 15 وزیروں نے تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے۔ باقی /70 ارکان بھی تنخواہ ’’دان‘‘ کر دیں تو شاید آئی ایم ایف کا قرضہ ادا ہو جائے۔
چلئے ، یہ فقرہ مذکورہ بالا تو ازقسم تفنن سمجھئے، سنجیدہ بات یہ ہے کہ مسئلہ تنخواہوں کا نہیں، دیگر مراعات کا ہے جن کی مالیت ناقابل تصور حد تک ہے۔ سمجھنے کے لیے وہ لطیفہ یاد کیجئے۔ ایک آدمی نے قسم کھائی یا منت مانی کہ یہ کام ہو گیا تو اونٹ ایک روپے میں بیچ دوں گا۔ کام ہو گیا تو پریشان ہوا کہ اب منت کیسے پوری کروں ، اتنا مہنگا اونٹ محض ایک روپے میں دے دوں۔ لیکن قسم تو پوری کرنی تھی۔ آخر ایک ترکیب سوجھی۔ اونٹ کے گلے میں رسی ڈال کر ایک بلّی بھی باندھ دی۔ گاہکوں کی لائن لگ گئی جب یہ بات پھیلی کہ کوئی اپنا اونٹ ایک روپے میں د ے رہا ہے۔ گاہک آتے تو وہ آدمی بتاتا کہ اونٹ کی قیمت تو صرف ایک روپیہ ہے لیکن ساتھ میں بلّی بھی خریدنا ہو گی جو ایک لاکھ روپے کی ہے۔
وزیروں کی تنخواہوں کو ایک روپے والا اونٹ سمجھ لیجئے اور مراعات کو ایک نہیں، آٹھ دس بلّیوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ سمجھیں، پھر اصل نکتے کی بھی سمجھ آ جائے گی۔
_______
اور یہ بلّیاں محض وزیروں کی مراعات نہیں، ارکان اسمبلی جو ہزار سے بھی زیادہ ہیں، سبھی کے سبھی اپنی جگہ دس دس بلّیوں کے برابر ہیں اور رہی بیوروکریسی تو وہ تو پورا بلّی خانہ ہے۔ جاپان کے جزیروں میں سے ایک جزیرہ بلّیوں کے لیے خاص ہے۔ دسیوں ہزار بلّیاں اس میں رہتی ہیں۔ بہت مشہور جزیرہ ہے۔ ہماری بیوروکریسی بلّیوں کا جزیرہ نہیں، بلّیوں کا براعظم ہے اور ہر بلّی اہلِ پاکستان کو سالانہ کئی ارب میں پڑتی ہے۔ ہر بلّی کے پاس ان گنت پلاٹ اور بنگلے ہیں وہ بھی کئی کئی سو کنال کے۔ ایک بلّی سال میں اتنا پٹرول کھا جاتی ہے کہ اس سے سارے شہر کی کفالت ہو سکتی ہے۔ بجلی فی بلّی اتنی کہ ایک پورے گائوں کو روشن کر دے اور پھر دوسری مراعات اتنی کہ ہر بلّی کا گھر الف لیلیٰ والے بغداد کو بھی شرمائے۔
پچھلے دنوں کسی سادگی کمیٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی خدمت میں سفارشات پیش کی تھیں کہ ان بلّیوں کے دودھ میں 15 فیصد کمی کر دی جائے تو ہم آئی ایم ایف کی غلامی سے نکل سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کی سخن فہمی عالم بالا کی سخن فہمی سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے ساری کٹوتیوں کا رخ 80 فیصد نشیب زادوں کی طرف کر دیا، ٹیکس کی ساری لینڈ سلائڈنگ اہل نشیب کی بستیوں پر آ گری۔ بلیاں پہلے سے بھی زیادہ مزے میں ہیں۔ منی بجٹ میں بلّیوں کی مراعات جوں کی توں رہیں بلکہ کچھ بڑھ ہی گئیں۔
_______
خیر بجٹ کو چھوڑئیے، کل ایک صاحب زماں پارک کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے بتایا کہ ساٹھ ستر نوجوان وہاں جمع ہیں اور ہم لے کر رہیں گے آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔
انہیں بتایا کہ میاں، دراصل ان نوجوانوں کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ ان کے مہاتما نے رجیم چینج کی امریکی سازش کا بیانیہ واپس لے لیا ہے۔ امریکہ کو باعزت بری کر دیا ہے۔ انہیں بریت کی خبر دے دو۔ وہ یہ نعرے لگانا بند کر دیں گے اور ہاں انہیں یہ بھی بتا دو کہ مہاتما نے اتنی ضمانتیں عدالتوں سے لے لی ہیں کہ اب زماں پارک کا نام بدل کر ضمانت خاں پارک رکھنے پر غور ہو رہا ہے۔
_______