• news

ہفتہ، 26 رجب المرجب1444ھ،18 فروری 2023ئ


خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 16 وفاقی وزراءاور وزیر مملکت نے کسی بھی قسم کی تنخواہ اور مراعات لینے سے انکار کر دیا۔ 
اس وقت ملک جن مشکلات سے دوچار ہے‘ اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ 16 ہی نہیں‘ بلکہ تمام حکومتی اور اپوزیشن رہنماﺅں کو رضاکارانہ طور پر ہر قسم کی تنخواہ اور مراعات سے اپنے ہاتھ کھینچ لینے چاہئیں۔ ان 16 وزراءکی قربانیاں واقعی قابل ستائش ہیں۔ ان ارکان میں ہمارے وزیر خزانہ بھی شامل ہیں جو ازخود جلاوطنی کے بعد واپس آکر ملک کیلئے ”کچھ نہ کرنے “ کی پاداش میں اپنی پینڈنگ تنخواہیں وصول کر چکے ہیں۔
 سیاسی رہنماﺅں کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے‘ اگر وہ قومی خزانے سے ایک دھیلہ بھی نہ لیں یہ انکی عظیم قربانی ہوگی۔ اس وقت ملک چلانے کیلئے ایک ایک پائی کی ضرورت ہے جس کیلئے ہمیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی قبول کرنا پڑ رہی ہیں۔ 
بہرحال بات اسی وقت بن پائے گی جب تمام سیاست دان اپنی ”نیک کمائی“ سے بھری تجوریوں کا منہ ملک وقوم کی بقاءکیلئے کھول دیں گے۔یقین جانیئے پوری قوم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرے گی اور یہ پوری زندگی اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے۔ 
٭....٭....٭
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے دسمبر کے ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ 
یہ خبر ہم نے اپنی تسلی کیلئے دو تین بار پڑھی کہ کہیں مغالطہ تو نہیں ہو رہا۔ جس کے قلم سے چارجز میں صرف اضافے کیلئے عبارت لکھی جاتی رہی ہے‘ وہ ان حالات میں جب حکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلئے پیشگی اقدامات کے تحت منی بجٹ کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ کر چکی ہے‘وہ کیسے فیول ایڈجسٹمنٹ کے چارجز میں کمی کا اعلان کر سکتا ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ابھی دنیا میں نیکی کرنے کا رجحان باقی ہے اسی لئے یہ دنیا قائم و دائم ہے۔ اور یہ اور بھی حیرت کی بات ہے کہ نیپرا کی طرف سے اب کی بار پیسوں کے بجائے‘ روپوں میں کمی کی گئی ہے جس کے تحت 2 روپے 32 پیسے فی یونٹ کم کئے گئے ہیں، بے شک بے مہابہ بڑھے ہوئے بجلی کے بلوں میں یہ کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے لیکن ان حالات میں نیپرا کا یہ دلیرانہ فیصلہ ہے جو مہنگائی کے اس دور میں قوم کے سر پر برستے ہتھوڑوں میں کچھ کمی لانے کے مترادف ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو تاکہ نیپرا فیول چارجز سے نکونک ہوئے بجلی کے بلوں میں اور کمی کرسکے۔ آجکل عوام بے چارے روٹی خریدنے کے بجائے بجلی بل کی ادائیگی کیلئے پیسے جمع کرتے نظر آتے ہیں۔ 
اب اوگرا کو بھی نیپرا کی تقلید کرتے ہوئے کوئی نیکی جھاڑ دینی چاہیے۔ وہ جس طرح پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافہ کررہا ہے‘ اور حکومت سے اپنی بھیجی ہر سمری کی منظوری کیلئے تگ و دو کرتا نظر آتا ہے‘ اس سے تو ہرگز امید نہیں وہ عوام پر رحم کریگا۔ مگر نیپرا کا حوصلہ دیکھ کر شاید اسے بھی عوام کی حالت ِ زار پر ترس آجائے۔ 
٭....٭....٭
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خطاب میں گھی کے فی کلو نرخ 6 ارب بتا گئے۔ 
خطاب کے دوران ہمارے رہنماﺅں کی زبان پھسلنا معمول بن چکا ہے۔ ایک دوسرے کیخلاف بولنے پر آتے ہیں تو شائستگی کا دامن چھوڑنے کے علاوہ الفاظ کا چناﺅ بھی بھول جاتے ہیں۔ فرطِ جذبات میں اتنے بے قابو ہو جاتے ہیں کہ انکے منہ سے کچھ سے کچھ نکل جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ”کانپیں ٹانگ رہی ہیں“ والا جملہ تو اب محاورہ بن چکا ہے۔ بہت سے ٹی وی ٹاک شوز میں سنجیدہ موضوع کے دوران مہمان یہ جملہ ادا کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کا یہ جملہ بھی کافی شہرت پا چکا ہے کہ ”بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے‘ بارش زیادہ آتا ہے تو سیلاب آتا ہے“۔ اسی طرح انکی والدہ محترمہ بھی اپنی ایک تقریر کے دوران سہواً یہ کہہ گئیں کہ ”اذان بج رہا ہے“۔ پھر محترمہ مریم نواز بھی اپنے ایک جلسے میں انڈے کلو کے حساب سے بیچ چکی ہیں۔ اب خان صاحب نے گھی کی قیمت 6 ارب روپے بتا کر قوم کے پاﺅں کے نیچے سے زمین ہی نکال دی۔ نہ جانے یہ خان صاحب کو گرفتاری کا خوف تھا یا وہ پیشگی اطلاع دے رہے ہیں کہ جس تیزی سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ عوام کو گھی 6 ارب روپے فی کلو ملا کریگا۔ خدا ایسی نوبت نہ لائے۔ اگر بالفرض گھی کے نرخ اس نہج پر پہنچ بھی گئے تو چند گھی کے ڈبے آئی ایم ایف کو دے کر اسکے قرض سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ بہرحال ہمارے رہنماﺅں کو اپنے مخالفین کے خلاف بولتے وقت بدحواسی سے کام نہیں لینا چاہیے‘ الفاظ کے چناﺅ کاخاص خیال رکھنا چاہیے اور کم از کم تہذیب و شائستگی کا دامن تو ہرگز ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ ان کا خطاب صرف انکے حامی ہی نہیں سن رہے ہوتے ہیں‘ بلکہ یہ خطاب پوری دنیا میں ہماری ترجمانی بھی کر رہا ہوتا ہے۔ 
٭....٭....٭
راولپنڈی کے رہائشی علاقے میں تیندوا گھس آیا‘ چار افراد زخمی۔ 
ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) نمبر2 کے رہائشی علاقے میں ایک تیندوے نے گھس کر خوف و ہراس پھیلا دیا‘ شہری گلیوں میں اسے دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے۔ گو کہ محکمہ وائلڈ لائف والوں نے اسے قابو کرلیا مگر اسکے باوجود وہ چار افراد کو زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ چند روز قبل بھی ایک تیندوا اسلام آباد کے رہائشی علاقے میں گھس آیا تھا جس نے علاقے میں کافی خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ تیندوﺅں کا بار بار پاکستان میں داخل ہونا ہمارے لئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں جس طرح جنگل کا قانون پروان چڑھ رہا ہے‘ اسے دیکھ کر ہی شاید ان تیندوﺅں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنی من مانیاں کرتا نظر آرہا ہے۔ کسی کو نہ قانون کا خوف ہے نہ کوئی اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرتا ہے۔ تاجر سے لے کر ایک عام ریڑھی والا بھی ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا۔ من حیث القوم بے ایمانی ہماری سرشت میں شامل ہو چکی ہے۔ کسی کو کسی کا خوف نہیں رہا۔ ہمارا یہی رویہ معاشرے کو جنگل کے قانون کی طرف دھکیل رہا ہے۔ منصف انصاف کے کٹہرے میں بلاتے ہیں مگر بااثر لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو شہر اور جنگل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز تیندوے ہماری شہری آبادیوں میں گھس کر اودھم مچاتے رہتے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن