چودھری پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیوز
پاکستان کے سیاسی میدان میں گزشتہ چند مہینوں سے آڈیو اور ویڈیو لیکس نے بہت اہمیت حاصل کر لی ہے۔ یہ سلسلہ ویسے صرف پاکستان تک محدود نہیں، دنیا بھر میں ایسے معاملات سر اٹھاتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک کے مضبوط حکومتی اور سماجی ڈھانچوں کو ایسے معاملات کے باعث کوئی دھچکا نہیں لگتا مگر ایسا ملک جہاں معیشت کی کشتی ڈوب رہی ہو وہاں ایسی چیزوں کا منظرِ عام پر آنا حکومت اور سماج دونوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ خیر، ہمارے ہاں آڈیوز لیکس کا نیا واقعہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی سے جڑا ہوا ہے۔ پرویز الٰہی کی جو مبینہ آڈیوز منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں یہ سنائی دے رہا ہے کہ ایک شخص، جس کے پرویز الٰہی ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، اپنے وکلاءسے کہہ رہا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کا کیس سپریم کورٹ کے ایک خاص جج کی عدالت میں لگوائیں۔ اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال سے اپیل کی کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو یہ ٹاسک سونپا ہے کہ وہ وزارتِ قانون سے رائے لینے کے بعد پرویز الٰہی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں شامل تفتیش کرے۔ آڈیو لیک کی فرانزک رپورٹ پر حکومت باضابطہ یہ معاملہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشنل کونسل میں بھجوائے گی۔ ادھر، پاکستان بار کونسل نے بھی مبینہ آڈیو لیک پر چیف جسٹس سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے تمام معاملات ایک طرف سیاسی قیادت کی ساکھ کر مزید متاثر کررہے ہیں اور دوسری جانب ملک کے وقار میں بھی کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس سب کی وجہ سے عوامی مسائل بری طرح نظر انداز ہورہے ہیں، لہٰذا سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ملک اور عوام کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اس سب سے گریز کرے۔