کسی منصوبے کیلئے شہریوں سے زبر دستی لپنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عوامی منصوبوں کیلئے زمین کے حصول کے تنازعات حل کرنے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔35 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کسی منصوبے کیلئے شہریوں سے زبردستی سستی زمین لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عوامی منصوبے کیلیے شہری سے مارکیٹ ریٹ پرزمین لینا اس کا بنیادی حق ہے۔ عوامی منصوبے کیلئے شہریوں سے زمین لینے کیلیے گائیڈ لائنز ہونی چاہئیں، حکومت نے عوامی منصوبوں کے متاثرین کو جائز حق دینے کے لئے کوئی طریقہ کارنہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ عوامی منصوبوں کے متاثرین کے تنازعات پر ہزاروں مقدمات عدالتوں میں آتے ہیں عوامی منصوبوں کیلئے زمین کے حصول کے تنازعات حل کرنے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ عوامی منصوبوں کی اراضی کے مارکیٹ ریٹ کے تعین کیلئے کسی من مانی چل سکتی ہے نہ ہی کلیٹر کی مرضی،بدقسمتی اس کیس میں سے اراضی مالکان کو زمین کی اصل قیمت ملنے کیلئے تیس سال انتظار کرنا پڑا، چیف جسٹس پاکستان کی سربرا ہی میں تین رکنی بنچ نے24 مارچ2022 ء کو مقدمہ کی سماعت کی تھی جس کا فیصلہ اب جاری کیا گیا۔ واضح رہے کہ آرڈیننس فیکٹری توسیعی منصوبے کیلئے 1990ء میں ضلع اٹک کے تین دیہات کی زمین لی گئی۔ آرڈیننس فیکٹری توسیعی منصوبے کیلیے 29 ہزار کنال زمین30 ہزار روپے فی کنال خریدنے کا حکم دیا گیا تھا۔ آرڈیننس فیکٹری اٹک کے توسیعی منصوبے پر زمین تنازعہ کیس33 سال بعد حل ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کی کم قیمت پر زمین کی خریداری کی اپیلیں مسترد کر دیں۔