شاباش احسن اقبال اور امن و امان کی خراب ہوتی صورتحال!!!!!
ملک معاشی مسائل سے دوچار ہے ان حالات میں حکمران طبقے کو سب سے زیادہ قربانیاں دینے کی ضرورت ہے چلیں اپنے اکاؤنٹ سے کچھ نہ نکالیں، چندہ نہ دیں، ذاتی حیثیت میں آسائشوں کو کم نہ کریں لیکن مراعات اور سرکاری اخراجات کم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور یہ کام انہیں سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے کرنا چاہیے۔ وزراء اپنی تنخواہوں، گاڑیوں، موبائل، پیٹرول، سرکاری دفتر کا مناسب استعمال، غیر ضروری اخراجات میں کمی کر کے ملک کا بہت فائدہ کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے مثال قائم کی ہے۔ مراعات اور پروٹوکول سے نکل کر عوامی زندگی گذارنے کا آغاز ہو تو ناصرف سرمائے کی بچت ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی اچھا پیغام جائے اور حکومت توانائی بحران سے نکلنے کے لیے سخت فیصلے کرتی ہے تو عملدرآمد میں آسانی رہتی ہے۔ بہرحال خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کفایت شعاری مہم کے تحت سرکاری گاڑی واپس کر دی ہے۔
احسن اقبال نے سرکاری گاڑی نازک اقتصادی صورتحال کے باعث واپس کرتے ہوئے اس حوالے سے سپیشل سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو خط لکھ دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ مہنگی گاڑی کی جگہ چھوٹی گاڑی استعمال کی جا سکتی ہے۔
کمزور اقتصادی صورتحال کے پیش نظر توانائی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو سخت فیصلوں کی ضرورت ہے اور ایسے فیصلوں کے لیے حکومت کو مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے اگر وفاقی وزراء ، مشیران کرام حقیقی معنوں میں کفایت شعاری سے کام لیں گے تو اس کا مثبت اثر کسی بھی سطح پر لوگوں کو قائل کرتے ہوئے ضرور پڑتا ہے۔ دیگر وفاقی وزراء کو بھی آگے آنا چاہیے۔ گرمیوں میں ائیر کنڈیشنز کا کم استعمال کیا جائے۔ سرکاری دفاتر میں اس حوالے سے بہت لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ "صاحب" کمرے میں نہ بھی ہوں تو اے چلتے رہتے ہیں اور یہ مشق پورے ملک میں ہے صرف اس پہلو پر توجہ دی جائے تو اچھا خاصا فرق پڑ سکتا ہے۔ ہمیں ملکی سطح پر کفایت شعاری کی حقیقی مکمل شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی کو لکھا گیا خط منظرعام پر آ گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان عارف علوی کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت ریاست کے سربراہ اور تمام آئینی ادارے صدر مملکت کے ماتحت ہیں کمیشن ایوان صدر کی جانب سے رہنمائی کا احترام کرتا ہے۔الیکشن کمیشن کے خط کے متن کے مطابق صدر مملکت کے خط میں بہتر الفاظ کا چناؤ کیا جا سکتا تھا، آئینی ادارے کو مخاطب کرنے کے لیے بہتر الفاظ کا چناؤ ضروری ہے، الیکشن کمیشن آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہے۔کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا صدر مملکت اور گورنرز کے اختیارات ہیں، صدر مملکت ہی قومی اسمبلی تحلیل اور عام انتخابات کا اعلان کرتے ہیں۔
صدر مملکت عارف علوی کے عہدے کا تقاضا ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما کے بجائے ملک کے صدر کی طرح بات کرنی چاہیے۔ صدر وفاق کی علامت ہے، صدر کو فریق بننے کے بجائے معاملات کو غیر جانبدار انداز میں آگے بڑھانے چاہییں بالخصوص جہاں ریاستی اداروں کا معاملہ ہے وہاں حساسیت کی نوعیت اور ہوتی ہے وہاں ردعمل کچھ اور ہوتا ہے۔ اگر صدر کی طرف سے یہ لگے کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ معمولی بات ہے۔ پاکستان کو ویسے بھی تحمل، برداشت کی ضرورت ہے۔ اگر صدر پاکستان بھی اس معاملے میں کسی ایک سیاسی فریق کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیں گے تو بے چینی میں اضافہ ہو گا اور یہ صورتحال ملک کے لیے اچھی نہیں ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کے پی او کا دورہ کیا وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور کور کمانڈر کراچی بھی آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی پولیس چیف آفس کا دورہ کیا، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ سندھ کو پولیس آفس حملے سے متعلق کور ہیڈکوارٹرز میں بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف اور وزیراعلیٰ سندھ نے حملے میں زخمی اہلکاروں کی عیادت بھی کی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا نظریہ نہیں ہوتا، گمراہ کن تصورکو لالچ اور دباؤ سے مسلط کیا جاتا ہے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا انسداد دہشت گردی کے لیے اعتماد اور مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے، پاکستانیوں نے ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسترد کیا اور شکست دی، ہم مل کر خوشحال مستقبل کیلیے اس خطرے پر غالب آئیں گے۔
جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا سکیورٹی فورسز کی توجہ انسداددہشتگردی اورانٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز پر ہے، انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز پورے ملک میں کامیابی سے کیے جا رہے ہیں۔
امن و امان کے حوالے سے ہمیں سنجیدہ قسم کے مسائل کا سامنا ہے پاکستان میں گذشتہ چند روز میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان اور بالخصوص سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے کہ حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہماری حفاظت پر مامور جوانوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے لگ بھگ دو دہائیاں بہت خوف میں گذاری ہیں اور اس دوران ہزاروں قیمتی جانوں کو قربان بھی کیا ہے، کھربوں ڈالرز کا نقصان اور دنیا کے طعنے بھی برداشت کئے ہیں۔ امن کے دشمن ایک مرتبہ پھر ہمیں ماضی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی قیادت کو اس معاملے میں کوئی نرمی نہیں کرنی چاہیے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے بے رحمی ہی ملک میں بدامنی پھیلنے سے روک سکتی ہے۔