آڈیو لیکس: کونسا قانون خفیہ ریکارڈ نگ کی اجازت دیتا ہے ، عمران : 8مارچ کو سماعت کی استدعا
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+خصوصی رپورٹر) چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھ دیا جس میں انہوں نے معاملے پر گزشتہ برس اکتوبر میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کردی۔ چیف جسٹس اور معزز ججز سے آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کیلئے اقدامات کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ عمران خان نے معاملے کے حوالے سے 8 اہم ترین سوالات بھی چیف جسٹس اور ججز کے سامنے رکھ دیے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز/ویڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عمران خان نے منظرِعام پر آنے والی مبینہ آڈیوز/ویڈیوز جو مختلف موجود و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگوؤں پر مبنی ہیں، عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ منظرِعام پر آنے والی آڈیوز/ویڈیوز غیرمصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان آڈیو/ویڈیوز کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرکے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِعام پر آئیں۔ ان آڈیوز سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر/ہاؤس کی خفیہ نگرانی یا یہاں ہونے والی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگز ایک معمول تھا۔ ایوانِ وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے‘ ایوانِ وزیراعظم کی سکیورٹی پر نقب سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات و حیات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ قوی شواہد موجود ہیں ان غیرمصدقہ و جعلی آڈیوز/ویڈیوز کے ذریعے تنقیدی آوازوں کو دبایا جانا مقصود ہے۔ عمران خان نے کہا کہ دستور کا آرٹیکل 4 ہر شخص کو قانون کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ افراد کو میسر حقوق ناقابلِ جواز ڈھٹائی اور صریح دیدہ دلیری سے پامال کئے جارہے ہیں۔ میں نے اکتوبر 2022 میں ان آڈیو لیکس پر آرٹیکل 184(3) کے تحت معزز عدالت کے روبرو ایک آئینی درخواست دائر کی۔ بدقسمتی سے اب تک میری یہ درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ کی جا سکی‘ بدقسمتی سے حال ہی میں سابق وزیراعلیٰ اور سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کے مابین مبینہ گفتگو خفیہ طور پر سماجی میڈیا پر جاری کی گئی۔ واضح ہوچکا کہ اب عوام معمول کے تحت اس خفیہ نگرانی و ریکارڈنگز کا نشانہ بن رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے چیف جسٹس اور معزز ججز کے سامنے اٹھائے گئے 8 سوالات رکھے کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا قانون عوام الناس کی اس وسیع پیمانے پر نگرانی و خفیہ ریکارڈنگز کی اجازت دیتا ہے، قانون اس نگرانی و ریکارڈنگز کا حق کسے دیتا ہے‘ اس نگرانی و ریکارڈنگز کی حدود و قیود کیا ہیں؟۔ اس نگرانی و ریکارڈنگز کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا‘ ریکارڈنگز مواد کی حفاظت کا کیا انتظام ہے؟۔ کسی کی مرضی سے خفیہ طور پر ریکارڈ اور توڑ مروڑ کر منظرِعام پر لانے کو گوارا کیا جاسکتا ہے؟۔ قانون سے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟۔ عمران خان نے سپریم کورٹ سے آڈیو لیکس پر دائر درخواست کو آٹھ مارچ کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا کر دی۔