قید میں شہباز شریف نے سردی سے بچائو کیلئے گرم پانی کی بوتل بھیجی: خواجہ آصف
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ جب مجھے نیب نے گرفتار کیا تو گاڑیوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا جس طرح دہشت گرد کو گرفتار کرتے ہیں۔ میری وائف امریکہ اور بیٹا یہاں تھا۔ مجھے بیٹے سے فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ نیب میں 22 روز رہا۔ پھر جیل میں لے گئے جہاں 6 ڈگری ٹمپریچر تھا اور شدید سردی تھی۔ مجھے دو کمبل دئیے گئے۔ ایک اوپر لینے اور دوسرا نیچے بچھانے کیلئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ڈائریکٹ انسٹرکشن تھیں کہ اسے کوئی سہولت نہیں دینی۔ لنگر کا کھانا ملے گا۔ ٹھنڈے پانی سے نہا لیں۔ آدھی رات کو کمرے کی سلاخوں پر ہلچل ہوئی۔ میں نے کھولا تو انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف نے آپ کے ساتھ سلوک کاپتا کیا ہے، گرم پانی کی بوتل دی ہے کہ اسے پیروں میں رکھ لیں۔ شہباز شریف ہمسائے تھے لیکن ان کے ساتھ دوران اسیری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں نے شکر کیا کہ پائوں تو گرم ہوں گے۔تھوڑی دیر بعد ایک اور بندہ آیا اور کہا کہ میاں نواز شریف نے آپ کیلئے پیغام بھیجا ہے۔ میں خوش ہوا کہ میرے لیڈر نے لندن سے پیغام بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ڈپلومہ لینا ہے یا ڈگری لینی ہے۔ تھوڑی دیر مجھے سمجھ نہیں آئی۔ پھر میں پرچھا ڈپلومہ کتنی دیر کا ہے اور ڈگری کتنی دیر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈگری 6 ماہ اور ڈپلومہ تین ماہ کا ہے۔ کتنی دیر رہنا ہے۔ میں نے کہا کہ جتنی دیر رکھیں۔ اب آگئے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اللہ کرے ڈپلومہ میں جان چھوٹ جائے، ڈگری نہ کرنی پڑے۔ لیکن ڈگری والا کام ہو گیا۔ 6 ماہ مجھے رکھا گیا۔ مجھ پر سخت نگرانی کی گئی۔ پھر عدالت سے جو سہولت بنتی تھی وہ ملی۔ عمران خان اس معاملے میں بہت چھوٹا آدمی ہے۔ ایک ایک سیکنڈ مانیٹر ہوتا تھا۔ نواز شریف کو ڈاکٹر نے اجازت دے دی ہے، اگر وہ اس وقت پاکستان آتے ہیں تو ن لیگ کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان کی سیاست کو نواز شریف کی ضرورت ہے، اگلا الیکشن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے لڑنا چاہیے۔ عمران خان سمیت کسی سیاست دان کو جیل بھیجنے اور نااہل کرانے کے خواہش مند نہیں۔ عمران دور کا آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ سامنے آنا چاہیے۔ عمران خان کا پورا کیریئر دیکھ لیں، بیانیہ اور سیاسی سوچ نظر نہیں آئے گی۔ عمران خان کی سیاست صرف ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ عمران خان نے ہمارے ساتھ عدلیہ بحالی مہم میں استعفیٰ بھی دیا۔ عمران کا ہماری سوچ سے علیحدہ ہونا فطری بات تھی۔ 2008ء میں ہمارا مشترکہ اپوزیشن کا ایجنڈا نہیں تھا۔ الیکشن کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔ 2013ء کے الیکشن میں عمران نے راولپنڈی کے سہارے لینا شروع کر دئیے۔ شوکت خانم ہسپتال کو سیاسی بیان بازی کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ عمران خان نے میرے اوپر کیس کیا ہے، میں نے نہیں کیا۔ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ سے ذاتی تعلقات ہیں، ان کا احترام کرتا ہوں۔ جنرل باجوہ 2018ء کے الیکشن مینج کر رہے تھے تاہم انہوں نے الیکشن میں میری کوئی مدد نہیں کی۔ جنرل باجوہ سے جو بات ہوئی وہ میں نے خود ٹی وی پروگرام میں بتائی۔ آج کل جو لوگ پکڑے جاتے ہیں وہ روتے بہت ہیں۔ میں کسی کو ڈس کوالیفائی کرانے کا خواہش مند نہیں۔ میرے نزدیک سیاست ذاتی دشمنی نہیں۔ عمران خان کا تین ماہ پہلے جو مقبولیت کا گراف تھا وہ اب نہیں رہا۔ آئی ایم کے ساتھ سابق حکومت نے جو معاہدہ کیا وہ ہمیں شائع کرنا چاہیے، پچھلی حکومت نے جو آئی ایم ایف کی شرائط مانیں وہ ہمیں منظر عام پر لانی چاہئیں۔ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن عمران خان کا گراف کم ہوا۔ عوام کو مہنگائی کی وجہ سے مشکلات ضرور ہیں۔ ہمیں اتنی مشکلات کا ادراک نہیں تھا کہ یہ اتنی بارودی سر نگیں پچھا کر گئے ہیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔