نیب ترامیم سے مستفید سیا ستدان کم مگر نما یاں ہیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نیب ترامیم کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کوئی شہری سپریم کورٹ میں چیلنج کیسے کر سکتا ہے؟۔ پارلیمنٹ سزائے موت ختم کر دے تو متاثرین کی درخواست پر سپریم کورٹ اسے بحال کر سکتی ہے؟۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا عدالت اگر ایک فریق کی درخواست پر نیب قانون تبدیل کرے تو دوسرے کو بھی یہی حق ہونا چاہیے، نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا درخواست گزار کو یہ سمجھانا ہو گا کہ ترامیم سے مخصوص افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ درخواست گزار کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ نیب ترامیم میں نقص کیا ہے، دیکھنا ہو گا کہ درخواست گزار کا اپنا کنڈکٹ کیا تھا؟۔ عمران خان خود کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عوام کا نمائندہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا درخواست گزار کا موقف ہی یہ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدالت کو نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم سے کیسے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں؟۔ وکیل نے کہا نیب ترامیم کیس میں کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے، نیب ترامیم سے بظاہر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر احتساب کے قانون میں رد و بدل سے گورننس پر فرق آیا تو اس میں عوام کے بنیادی حقوق کیسے متاثر ہوئے؟۔ بنیادی حقوق یا تو متاثر ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، پوری دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ 30 فیصد بنیادی حق متاثر ہوا اور 70 فیصد محفوظ ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا اگر عدالت کے سامنے درخواستیں آئیں تو ہر قانون سازی میں نقص نکلیں گے، قانون سازی میں کوئی خلا ہو تو اس کو پارلیمنٹ ہی درست کر سکتی ہے، نیب ترامیم سے 2019 سے اب تک 221 ریفرنسز واپس ہوئے، واپس ہونے والے 221 نیب ریفرنسز میں سے 29 سیاستدانوں کے ہیں، 2019 سے اب تک نیب سے 41 افراد بری ہوئے جن میں سے 5 سیاستدان ہیں، وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا نیب ترامیم سے بری یا فائدہ حاصل کرنے والوں میں سیاستدان بہت کم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا نیب ترامیم سے مستفید سیاستدان کم ہیں لیکن جو ہیں وہ نمایاں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا تحریک انصاف کا کہنا ہے نیب قانون میں تبدیلی سے جرم کی شدت اور نوعیت ہی بدل چکی ہے، درخواست گزار کے مطابق نیب ملزم کی اہلیہ اور بچوں کو احتساب کے عمل سے باہر کر دیا گیا، حکومت کا موقف ہے اہلیہ اور بچوں کیخلاف تحقیقات کیلئے ٹھوس شواہد ہونے چاہئیں۔