2002ء میں پہلے کا تو شہ خانہ ریکارڈ 13مارچ کو طلب
لاہور (سپیشل رپورٹر) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے قیام پاکستان سے لیکر اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر حکومت سے 2002 سے قبل کا توشہ خانہ ریکارڈ بھی 13 مارچ کو طلب کرلیا ہے۔ سیکرٹری کابینہ ریکارڈ سمیت پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ نے 2002 سے اب تک کا توشہ خانہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرلیا ہے کہ یہ تحائف کس نے خریدے اور یہ سارا ریکارڈ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے گا۔ بیرون ملک سے یہ تحائف کس نے دیئے ہیں وہ اپ لوڈ نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 2002 سے پہلے کا ریکارڈ آپ کے پاس نہیں ہے؟۔ جس پر وکیل وفاقی حکومت نے جواب دیا کہ 2002 سے پہلے کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہے ۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کابینہ کا ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ بھی عدالت میں پیش کردیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ حکومت کو سارا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھنا چاہئے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک دم سے چیزیں تبدیل نہیں ہوتی ہیں، حکومت نے 2023 میں ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ کابینہ سیکرٹری 2002 سے پہلے کا توشہ خانہ کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں کہ یہ تحائف آئے کہاں سے ہیں۔ آپ یہ ریکارڈ بھی ہمیں چیمبر میں جمع کرائیں گے۔ عدالت نے کہا کس نے کیا تحائف حاصل کئے سامنے آنا چاہئے۔ دو سوال ہیں 2002 سے پہلے کا ریکارڈ اور استثنیٰ کیوں ہے؟۔ کوئی مقدس گائے نہیں جس نے جو تحائف لئے سامنے لائے جائیں۔ جو جواب دینا ہے تحریری صورت میں دیا جائے۔ اگر حکومت قانون بنا رہی ہے تو عدالت بھی معاملے کو دیکھے گی۔ یہ بھی دیکھیں گے بیرون ممالک سے تعلقات کیسے متاثر ہوسکتے ہیں۔ لگتا ہے حکومت عوام کو ریکارڈ نہیں دکھانا چاہتی ہے۔ 2002 کے بعد تحائف کا ریکارڈ سامنے لایا جائے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ2002 سے پہلے کا ریکارڈ وزارت خارجہ کے پاس تھا اس کی تصدیق یہ نہیں کرسکتے ہیں۔ عدالت نے کہا جو پہلے ہوا سو ہوا مستقبل میں ایسا نہ ہو، یہ سامنے آنا چاہئے کہ کس نے کیا لیا ہے؟۔