آئینی خلاف ورزی برداشت نہیں ، الیکشن 90روز میں : چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ آئین کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے۔ اور ہم آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا ان کی رائے میں اس کیس میں لیا گیا از خود نوٹس نہیں بنتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا وزیر اعلی کسی سیاسی رہنما کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر اسمبلی تحلیل ہی غیر آئینی ہوئی تو اس کو بحال کر نے سے بھی موجودہ صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختنوخواہ میں انتخابات پر ازخود نوٹس پر سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم 9 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے‘ عدالت کے پاس وقت کم ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کے اراکین کی جانب سے دائر درخواست میں وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جس کیلئے عدالت میں دستاویزات جمع کروائی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا سپریم کورٹ میں دورخواستیں ہیں وہ اب آئوٹ ڈیٹڈ ہوگئی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے،20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔ چیف جسٹس نے کہا انتخابات کے حوالے سے کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے سپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، آج فریقین کو نوٹسز جاری کریں گے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ لمبی سماعت نہیں کرسکتے، کل سماعت کریں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو تیاری مشکل ہوپائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کل (آج) ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود ہی رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، وقت گزر رہا ہے، لاہور ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا، لاہور ہائیکورٹ نے انتخابات کا حکم بھی دیا لیکن اس حکم کے خلاف گورنر اور الیکشن کمیشن نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کیں جن پر نوٹسز جاری کرکے کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ اصل ایشو انتخابات کی تاریخ ہے جس پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔ ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جار ہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم آئینی ایشو کی بات کر رہے ہیں۔ آئین پر ہر حال میں عمل ہونا چاہئے۔ جس کے بعد جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکر کی درخواست ہیں، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا، ایک سروس میٹر میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، ان سے باقاعدہ جواب بھی نہیں مانگا گیا، ایک دن سننے کے بعد چیف جسٹس کو انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس لینے کا کہہ دیا گیا، اس دوران کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا جسٹس جمال خان مندوخیل نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے ان کو حکم میں شامل کریں گے اور ان کا جواب دیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین نے کہا ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو ہی فائدہ ہوگا، یہ ٹائم بائونڈ کیس ہے، اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم آئین کی بات کر رہے ہیں، کسی فریق کی بات نہیں کریں گے، آئین پر ہر حال میں عمل ہونا چاہیے، اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انتخابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم نے بینچ میں شامل ججز کا آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کردیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم اس کیس میں آئینی شق پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی، سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی ناگزیر سنگین حالات ہوں تو ہی انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔ 20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کیس کارروائی کے دوران فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ از خود نوٹس بنتا ہے کہ نہیں، جس کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں ایڈوکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، اور اس کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے، بہتر ہوگا کہ کیس کو پیر کو مقرر کیا جائے ورنہ کل سب نمائندے پیش ہو کر بھی تیاری کیلئے مہلت ہی مانگیں گے۔ وکیل اظہر صدیق نے کہا سپریم کورٹ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوا لے تاکہ ہائیکورٹس میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں معلومات سامنے ہوں۔ جسے چیف جسٹس نے رد کرتے ہوے کہا ہم ہائیکورٹس سے ریکارڈ نہیں طلب کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار، شعیب شاہین سے استفسارکیا کہ کیا اسلام آباد بار کی درخواست سے متعلق کوئی قرار داد منظور ہوئی، جس پر شعیب شاہین نے کہا دس ممبران نے کیس کے حق میں جبکہ ایک ممبر نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ وکیل علی ظفر نے کہا عدالت فریقین کو آنے دیں تاکہ پتہ چلے کہ کون الیکشن کے حق میں ہے اور کون نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا اس کیس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات کیسے ہوں گے، یہ کیس سپیکر رولنگ سے مختلف ہے، اس میں آئینی آرٹیکل کی تشریح کا معاملہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا شفافیت کے مد نظر سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اسمبلی توڑنے کے اختیار کے استعمال کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے، کیا کوئی وزیر اعلی سیاسی رہنما کی ہدایت پر اسمبلی توڑ سکتے ہیں، عوام نے نمائندوں کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا تھا، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی نے اسمبلی توڑنے کے اختیار کا استعمال درست کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ممکن ہے عدالت ریکارڈ کے جائزہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی۔ ممکن ہے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے پر پہنچنے سے اسمبلی بحال ہوجائے اور اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے ممکن ہے یہ کرائسز ختم ہو جائے۔ چیف جسٹس نے کہا جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کو بھی سوالات میں شامل کیا جائے گا۔ جس کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ جب سپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سے الیکشن اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔ آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں، ہمارے سامنے دو درخواستیں دائر ہوتی ہیں۔ جن میں انتحابات کی تاریخ کے اعلان کی ناکامی کا کہا گیا۔ سپیکرز کی درخواست دائر ہونے سے پہلے بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کے درمیان خط و کتابت ہوئی۔ صدر مملکت نے نو اپریل کو انتحابات کی تاریخ دی۔ دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر کی مشاورت سے تاریخ دینے کا کہا۔ تاہم ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن اور گورنر نے اپیلیں دائر کیں۔ پشاور ہائیکورٹ میں بھی مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چھ ہفتے بعد بھی انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالتوں میں زیرالتوا ہے۔آئین نوے دنوں میں الیکشن کا کہتا ہے۔ ازخود نوٹس میں تین سوالات کا تعین کیا جائے گا۔ عدالت نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں، اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرلز کو 27 اے الیکشن کمیشن گورنرز کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت آج گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔