وزیراعظم میاں شہباز شریف کی اہم ملاقات اور چودھری نثار علی خان!!!!!
وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف سے آرمی چیف جنرل منیر عاصم اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ملاقات کی ہے۔ باخبر دوستوں کے مطابق ملاقات میں ملکی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ڈی جی آئی ایس آئی نے کابل جانے والے اعلیٰ سطح کے وفدکے بارے میں بریفنگ بھی دی۔ ملاقات میں ایپکس کمیٹی اجلاس کے ایجنڈے پربھی مشاورت کی گئی۔
موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ملاقات انتہائی اہم ہے۔ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اللہ معاشی تو ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ہے اگر ہم مجموعی طور پر جائزہ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ پاکستان اس وقت شدید مشکلات سے دوچار ہے اور ہم ایک مرتبہ پھر مشکل دور سے گذر رہے ہیں۔ گو کہ اس وقت امن و امان کے حوالے سے بہت زیادہ زیادہ بات چیت سننے کو نہیں مل رہی لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے۔ معیشت تو ٹھیک ہو جائے گی لیکن امن و امان کی صورت حال ٹھیک نہ ہوئی تو پھر معیشت کے ٹھیک ہونے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔ دو صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں جس کی وجہ سے وفاقی حکومت اپنے اصل مقصد کی طرف جس سرعت کے ساتھ بڑھنا چاہیے نہیں بڑھ رہی۔ اس کے ساتھ عدالتوں میں زیرسماعت مختلف مقدمات بھی حالات کی سنگینی کا پتہ دیتے ہیں۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں، مختلف حصوں میں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور عمارات کو جیسے نشانہ بنایا گیا ہے یہ حملے بالکل اسی انداز میں شروع ہوئے ہیں جیسے آج سے کوئی پندرہ برس قبل دہشت گردوں نے پاکستان میں امن وامان کو تباہ کرنے کے لیے ایسی کارروائیاں یا شروع کی تھیں۔ اس لیے دہشت گردوں کے ان حملوں کا دوبارہ سے آغاز اور پاکستان کے وزیر خارجہ کا دورہ افغانستان اور وہاں کی حکومت سے افغان سر زمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے حوالے سے بات چیت اس امر کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کے امن کو ایک مرتبہ پھر شدید خطرات لاحق ہیں۔
موجودہ حالات کے پیش نظر اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ انہیں ملک میں سیاسی سیاسی استحکام کے لیے باہمی اختلافات کو فوری طور پر نظر انداز کر کے وسیع تر ملکی مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام برقرار اور احتجاج کی سیاست کا سلسلہ جاری رہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ اور بوجھ پڑتا ہے۔ جس انداز میں انہیں ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے غیر معمولی حالات میں کام کرنے کے لیے ہر وقت خود کو تیار رکھنا پڑتا ہے سیاسی عدم استحکام ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور ان کی توجہ تقسیم ہوتی ہے۔ ملک دشمنوں کو موقع ملتا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے سیاسی قیادت سیاسی تماشے بند کر کے ملک کے مستقبل پر توجہ دیں۔ امن و امان کو قائم رکھنا سب کی ذمہ داری ہے سیکیورٹی اداروں کے جوان اور افسران اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ہمارا مستقبل محفوظ بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کا امن تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں، ملک میں کاروبار تباہ ہو رہے ہیں، ڈالر کی بلند ہوتی قیمت نے ہر صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ڈالرکی قدر اور بجلی کے بل میں اضافے نے فیصل آباد کی پاور لومز انڈسٹری تباہ کر دی ہے۔ کیا کسی کی اس طرف بھی کوئی توجہ ہے، کاروبار تباہ ہوتے رہیں گے تو معیشت کیسے بہتر ہو گی، غریب کا چولہا کیسے جلے گا، بے روزگاری کیسے ختم ہو گی۔ یہ صرف ایک شہر کے ایک کاروبار کی کہانی ہے ڈالر کے بے قابو ہونے کے بعد ہر دوسرا کاروبار ایسے ہی مسائل سے دوچار ہے۔ غیر ملکی امداد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن یہ پائیدار حل نہیں ہے ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کو چین سے ستر کروڑ ڈالرز موصول ہو گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سٹیٹ بینک کے مطابق رقم چائنا ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے رول اوور معاہدے کے بعد موصول ہوئی۔ اس سلسلہ میں پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ ہو چکا تھا۔ چین سے رقم کی وصولی کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر چار ارب ڈالرز کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
دوسری طرف سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ عمران خان نے کسی کو پارٹی میں شامل کرنیکی اتنی کوشش نہیں کی جتنی میرے لیے کی۔ عمران خان میرا پچاس سال سے دوست ہے۔ ہم نعرے بہت لگاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ملک انتہائی نازک موڑ پر ہے اور ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں، سیاست میں گالم گلوچ عام ہو گئی ہے۔ میں سچ کا علم بلند، عوام اور پاکستان کی نمائندگی کرتا رہوں گا، لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی پارٹی میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟ میں کہتا ہوں کہ میں اس گالم گلوچ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ وزیر تو میں جنرل ضیائ، جونیجو اور غلام اسحاق خان کا بھی تھا۔ جو لوگ عمران خان کا جھنڈا لیکر پھرتے ہیں یہ بے نظیر کا نعرہ لگاتے تھے، بعد میں مشرف کے ساتھ ہو گئے اور اب عمران خان کے ساتھ ہیں، انہیں پیٹرولیم کی وزارت کا شوق تھا، انہیں وہاں سے نکال دیا گیا، میں نے بڑے بڑے عہدوں کا انکار کیا ہے۔
چودھری نثار علی خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ باہر بیٹھے رہے لیکن کسی سیاسی جماعت یا آگے نکلنے یا کسی کو برا بھلا کہنے کی دوڑ کا حصہ نہیں بنے۔ پاکستان کی سیاست کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی دیرینہ جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور اصولی موقف اپناتے ہوئے راہیں جدا کیں ان ہے پاس دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی پیشکشیں ہوتی رہیں لیکن انہوں نے چھلانگیں لگانے کے بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ مستقبل میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی کھیل کس طرف جاتا ہے، انتخابات ہوتے ہیں اور کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے تو پھر چودھری نثار علی خان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔