اپنی زندگی خود جیو!
زندگی بڑی بے اعتباری ہے۔کب کےا ہو جائے کچھ پتا نہےں چلتا اور کہاں ہم کھو جائےں کسی کو خبر نہےں کہ کب کون خبر بن جائے! ہم جو آج خبر لکھ رہے ہےں ہمےں کےا علم کہ کل کو ہم خود ہی خبر بن جائےں اورکیا پتہ وہ پل جسے ہم خبر سوچ رہے ہےں وہ دوسروں کے لئے اتنی اہمےت کی ہو ہی نا۔ بس یوں ہی چپ چاپ گزر جائے اور ہم اپنی زندگی مےں مگن اپنی راہ پے چلتے جا رہے ہےں۔ دن مےں کہنے کو چوبیس گھنٹے ہوتے ہےں ، مگر کسی کے لئے ےہ وقت بھی بہت ہی تھوڑا سا ہوتا ہے اوروہ خواہش کرتے ہےں کہ کاش ان کا دن چالےس گھنٹوں کا ہو اور کچھ لوگوں کے لئے ےہ اےک اےک دن گزارنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ چاہتے ہےں کہ بس کسی طرح گزر جائے۔
سیانے کہتے ہےں کہ جب سفر پر نکلو تو سامان کم رکھو تا کہ تم سفر کا لطف اُٹھا سکو ےہ نا ہو کہ تم سامان ہی ڈھوتے رہو۔ اسی طرح زندگی مےں بھی اپنی مصروفیات صرف اتنی رکھےں کہ جن مےں آپ اپنی زندگی جی سکیں ےہ نا ہو کہ آپ اپنی مصروفیات اور کام کاج مےں اتنے گم ہو جائےں کہ آپ کو خبر ہی نا ہو اور آپ کی زندگی آپ کے بنا ہی گزر جائے۔ بہت ساری جگہوں مےں کوئی اور آ کر اس خلا کو پُر کرلےتا ہے اور پھر ہم جلن سے کڑھتے ہےں ، ہم سے برداشت نہےں ہوتا مگر تب ہم کچھ کر نہےں سکتے اور کئی بار زندگی کی رعنائیوں کو دنیا کے فریب مےں گم ہو کر گنوا دےتے ہےں۔ کئی لوگ اپنے کام کاج کو اپنے سر پر اتنا سوار کر لےتے ہےں کہ ان کا کاروبار ان کا کام کاج ہی ان کا سب کچھ ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اپنی فےملی لائف کو خراب کر بےٹھتے ہےں۔ کئی بار انسان خاندان سے خود کو اتنا جوڑ لےتا ہے کہ کام کاج کا کچھ دھیان نہےں اور اےسے مےں بھی اسے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
زندگی بہتر تبھی ہو سکتی ہے کہ جب ہم ہر چیز کو مناسب اہمےت دے کر اس پر مناسب وقت صرف کریں، جےسے زندگی مےں کامیابی کے لئے کام کاج کرنا ضروری ہے ، آخرت مےں کامیابی کے لئے دین پر عمل کرنا ضروری ہے اور ایسے ہی رشتوں کو بھی زندہ رکھنے کے لئے ان کو محبت اور چاہت کا پانی لگانا پڑتا ہے ، جو ہمارے اپنے ہےں ہمےں انہےں وقت دنیا پڑتا ہے ، ہمےں انہےں وقت دے کر، ان سے بات کر کے ان کے قریب بیٹھ کر انہےں احساس دلانا پڑتا ہے کہ وہ ہمارے لئے کتنے اہم ہےں ۔
مجھے اکثر بڑی بڑی کاروں پر سفر کرنے والے تاجروں پر رحم آتا ہے کہ جو دوپہر کو اٹھ کر اپنی دوکانیں کھولتے ہےں اور رات گئے گھر لوٹتے ہےں ، مجھے اےسے لوگ اکثر ظالم لگتے ہےں جو اپنی مصروفیت مےں اپنے بچوں کا بچپن اور لڑکپن قربان کر دےتے ہےں اور اےک دن انہےں علم ہوتا ہے کہ ان کے بچے اتنے بڑے ہو گئے ہےں ۔زندگی اتنی مشینی سی ہو گئی ہے کہ ہمیں ہوش ہی نہےں ہے۔
ےہاں سب کے سب اےک دوڑ مےں لگے ہوئے ہےں، بچوں کو بھی ہم نے ایسا ہی بنا دیا ہے، زیادہ نمبر لو، ڈاکٹر ہی بننا ہے ، انجنئیر ہی بنانا ہے ، ماں کے پےٹ سے ہی موبائیل اےکسپرٹ بن کے نکلنا ہے ، بڑے ہوئے تو کسی کو نوکری کی دوڑ مےں لگنا ہے ، کسی کو باہر بھاگنا ہے ، اور جو لگ گیا ہے وہ اب دوسروں کی جڑیں کاٹ رہا ہے ، دوسرے کا راستہ روکنا ہے اور اسے پھلانگ کر یا روند کر آگے نکلنا ہے ۔ ہم مڈل کلاس ہےں ہمےں امےر لوگ اور وڈےرے برے اور ظالم لگتے ہےں مگر ہم مےں بھی ہر پل امےر اور ویسا ہی ظالم بننے کا جنون ہے کہ جو ہر پل ہمارے خون کو اُبال رہا ہے ۔
مگر کےا ہم جانتے ہےں کہ ہماری اس دوڑ مےں ہمارے کتنے ہی رشتے ہم سے ٹوٹ جاتے ہےں ، موٹر سائےکل سے کار لےنے پر جو روےہ بدلتا ہے وہ کتنے ہی بھائےوں مےں فرق ڈال دیتا ہے اور کیسے ہم الگ الگ جےنا سےکھ لےتے ہےں۔ مگر بہر حال ہم اتنے برے بھی نہےں کہ کوئی مر جائے تو اس کا جنازہ نہ پڑھےں، فاتحہ پر نہ جائےں ، دکھی اسٹےٹس نہ لگائےں ، لوگوں کو اس انسان کی اچھی اچھی باتیں نہ بتائیں، وہ باتیں بھی کہ جو کبھی اس کی زندگی مےں اس سے نہ کی ہوں۔ ایسی باتوں کا اور اےسے رونے کا کیا فائدہ کہ جب وہ انسان ہی ہمارے پاس نا رہا۔
آج کے اسی مکےنکی دور مےںبھی وقت نکالیں اپنے پیاروں کے لئے ، ان کے ساتھ بےٹھ کر باتیں کریں، ان کے شکوے سنےں، ان کے ساتھ بےٹھ کر ڈرامہ دےکھےں، فلم دےکھےں، کھانا کھائیں، انہےں احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لئے بہت اہم ہےں اور آ پکی زندگی مےں ان کا خصوصی مقام ہے۔ شکوہ سننا کبھی برا نہےں ہوتا ، کےونکہ انسان شکوہ صرف اسی انسان سے کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے ، اپنے محبت کرنے والوں کے ساتھ محبت کریں ، انہےں وفا کا احساس دیں، انہےں آج اہمےت دیں، انہےں ان کی زندگی مےں احساس دیں کے وہ بہت خاص ہےں ، انہےں ابھی سے باور کرائےں کہ وہ آپ کی زندگی کا قیمتی جزو ہےں ، نہےں تو مرنے کے بعد رونے کا کوئی فائدہ نہےں ۔