عشق کیا ہے تو صبر بھی کر
کیا الیکشن ہونے چاہئیں یا نہیں ؟ اس سوال کے جواب سے پتہ چل جائیگا کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔ عمران خان کے ساتھ یا پھر مسلم لیگ ن کے ساتھ ۔ سنٹرل پنجاب میں یہی جواب ہے ۔ وہاں کوئی تیسری جماعت دکھائی نہیں دے رہی ۔ جمہوریت مخالف رائے کے احترام اور اکثریتی رائے کو تسلیم کرنے کا نام ہے ۔ لیکن ہم الیکشن میں اپنی پسندیدہ جماعت کی کامیابی کو ہی جمہوریت سمجھے بیٹھے ہیں۔ والٹیئر نے کہا تھا ’مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے ۔ لیکن میں آپ کو اس رائے کے اظہار کا حق دلانے کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں ‘۔ لیکن ہم گرم موسم والے ملکوں کے باسی ایسی ٹھنڈی ٹھار جمہوریت کے قائل ہرگز نہیں۔ ہماری جمہوریت قبائلی جمہوریت ہے ۔ ہم اپنی جماعت کے جھوٹے کو مخالف پارٹی کے سچے پر ترجیح ہی نہیں دیتے ، دل و جان و ایمان سے سچا بھی جانتے ہیں۔ پھر ہماری پسندیدگی کیلئے بھی کوئی لگا بندھا معیار نہیں۔ عمران خان کی بے پناہ مقبولیت اک عجوبہ ہے ۔ وہ جب تک اقتدار میں رہے غیر مقبول رہے ۔ ان کی نا اہلیت کے بارے بھی سوال اٹھتا رہا۔ حکومت سے باہر آنے کی دیر تھی کہ عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ ان کے سبھی گناہ ، خطائیں ، لغزشیں معاف ہو گئیں۔ اب چاروں صوبوں میں قومی ، صوبائی اسمبلی کا کوئی حلقہ ان کے ووٹروں سے خالی نہیں۔ عمران خان ان دنوں ملک کی مقبول ترین سیاسی شخصیت ہیں۔
میجر (ر) آفتاب پاکستان کی ہم عمر نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1984ءمیں جب یہ یونیفارم میں تھے انہیں اٹک قلعہ میں مارشل لاءعدالت نے حبس دوام کی با مشقت قید کی سزا سنائی ۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے بری ، بحری اور فضائی فوجی ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ ملک میں انتخاب اور اسطرح جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میاں نواز شریف ابھی سیاست کی گلی میں جانے کی سوچ بچار میں تھے اور عمران خان کرکٹ کھیلنے میں مگن۔ آج میجر آفتاب بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ الیکشن چھ ماہ نہیں پانچ سال کیلئے ملتوی کر دیئے جائیں۔ کیا وہ بھی الیکشن عمران خان کی وجہ سے ملتوی کروانا چاہتے ہیں؟ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال وہ الیکشن کے ہیجان میں مبتلا عمران خان کو 2028ءمیں الیکشن کے میدان میں اترنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس دوران وہ سینٹ کے ارکان اور ٹیکنو کریٹس کے زیر اہتمام حکومتی بندوبست چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بہتر شہرت کی حامل بیورو کریسی بھی انکے شامل حال رہے ۔ انہوں نے اور بہت سی تجاویز بھی دی ہیں۔ٹیکنو کریٹ حکومت سے یاد آیا ۔ ہم ابھی تک اکاﺅنٹنٹ ، منیجر اور ماہر معاشیات میں فرق بھی نہیں سمجھ پائے ۔ ہمارے اسحاق ڈار اکاﺅنٹنٹ ہیں جبکہ اسد عمر منیجر اور شبر زیدی ماہر معاشیات ۔ لیکن ہم سبھی کو ماہر معاشیات ہی سمجھتے ہیں۔ میجر ریٹائرڈ آفتاب بضد ہیں کہ اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف سیاسی رہنما اگر مخلص ہیں تو ان کےلئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پانچ سال کیلئے اقتدار کے اکھاڑے سے نکل کر تعمیر و بحالی کو اپنی منزل قرار دیں ۔ گویا اپنے اقتدارمیں وہ تعمیر اور بحالی کا کوئی کام نہیں کر سکتے ۔ ان کے مطالبے کی شدت کا اندازہ لگائیں ۔
انکے مطابق ”اگر یہ منظور نہیں تو جو مجھے دکھائی دے رہا ہے ، تو پھر میرے عزیز ہموطنوں کی پرانی آواز نہیں بلکہ اب گرج اور کڑک کے ساتھ آواز سنائی دے گی “۔ مزے کی بات ہے کہ ان کا مشورہ نہ ماننے کی صورت میں مارشل لاءکی یہ دھمکی ایک ریٹائرڈ فوجی کی طرف سے ہے ۔ عمران خان شعوری یا غیر شعوری طور پر سول بالا دستی کی جنگ اس مقام پر لے گئے ہیں کہ اب عوام مارشل لاءمشکل سے ہی ہضم کریں گے ۔ عوامی فکر اُدھر بے دھڑک پرواز کر رہی ہے جدھر اک زمانہ تک ان کے پاﺅں جلتے تھے۔ الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں 9رکنی بنچ تشکیل پا چکا ہے ۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر تین پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے عمل کا اظہار کیا ہے ۔ پہلا یہ کہ اس بات کا تعین کرنا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے ؟ دوسری اس بات کا جائزہ لینا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے ؟ تیسرا یہ کہ وفاق اور صوبوں کی اس ضمن میں ذمہ داری کیا ہے ؟مگر جسٹس اطہر من اللہ نے ایک نیا سوال بھی اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق یہ جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل بھی آئین کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ معاملے کو ایک اور رخ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ جائزہ بھی ضروری ہے کہ کیا اسمبلیوں کو اپنی مدت کی تکمیل تک کیلئے بحال بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ تحریک انصاف کی الیکشن کے مطالبے کے لئے ”جیل بھرو تحریک “اک مذاق بن گئی ہے ۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے تھاکہ نہ ہی وہ بھٹو ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکار بھٹو کے جیالوں کے سے سر پھرے ۔ بہر حال پھر بھی ان کے پیروکار
دل سلسلہ شوق کی تشہیر بھی چاہے
زنجیر بھی آوازہ زنجیر بھی چاہے
کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں۔لیکن انہیں آوازہ زنجیر کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی وین میں منرل واٹر کی بوتل ، دیسی مرغی کا سالن اور اٹیچ باتھ بھی چاہئے۔ پھر وہ دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر اپنی سیاسی سرگرمی جا ری رکھ سکتے ہیںورنہ وہ منہ سے بولیں نہ بولیں ان کا منشاو مدعا یہی ہے : ’میں باز آیا محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا ‘۔ ان کے لئے کالم نگار کا سندیسہ ہے ، سیاست محض لینے کیلئے نہیں ہوتی اس میں دینا بھی پڑتا ہے ۔ ہمیشہ سے سرکار دربار کی مسلم لیگ کے خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید اور خواجہ آصف تک جیل دیکھ چکے ۔یہ بھی دل بڑا کریں۔ مرد بنیں مرد۔ عشق کیا ہے تو صبر بھی کر ، اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے ۔