بدھ، 8 شعبان المعظم، 1444ھ،یکم مارچ 2023ئ
پاکستانی سکھ برادری نے ”فنٹاسٹک ٹی ڈے “ منایا
خوشی منانے کا یہ انداز لوگوں کے دلوں کو بھا گیا۔ ہو سکتا ہے۔ 27 فروری کو یومِ للکار کہہ لیں یا بھارت کا یومِ شرمندگی۔ اس روز اکثر پاکستانی اب اپنے سکھ بھائیوں کی طرح بھارتی گرفتار پائلٹ ابھی نندن کو چائے پلانے کی خوشی میں لوگوں میں مفت چائے تقسیم کیاکریں گے۔ ویسے سکھ برادری کی طرف سے خوشی منانے کا یہ طریقہ بہت خوبصورت تھا۔ مختلف شہروں کے گوردواروں میں بھی سکھوں نے لوگوں کو مفت چائے پلائی۔ اس سے بھارت والوں کو آگ لگی ہو گی یا مرچیں۔ کیونکہ اس وقت خود بھارت میں ”وارث پنجاب دے“ نامی تنظیم نے بھارتی حکمرانوں کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔ اس تنظیم کا سربراہ امرت پال نامی نوجوان ہے جو ہوبہو شہید بھنڈرانوالہ کی کاپی ہے۔ وہی دبنگ لہجہ وہی طلسماتی شخصیت۔ اس نوجوان نے بھارتی وزیر داخلہ کو نتھ ڈال دی ہے اور امیت شاہ زخمی ناگن کی طرح اس کی پے درپے چوٹوں سے تلملا رہا ہے۔ چار سال قبل بھارتی طیاروں کی طرف سے مادر وطن کی فضائی سرحدوں کی پامالی پر ہماری بہادر فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کو سبق سکھایا اورکرارا جواب دیا وہ انہیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ ہمارے شاہینوں نے پل بھر میں دو بھارتی طیاروں کو پیوند خاک کر دیا۔ ایک کا پائلٹ جان بچانے کیلئے پیراشوٹ سے کودا تو آزاد کشمیر میں آن گرا۔ جسے پاک فوج نے لوگوں کے غیض و غضب سے بچا کر اسلام آباد پہنچایا۔ ضروری پوچھ گچھ کے بعد چائے پلا کر اگلے روز بھارت کے حوالے کیا۔ یہ پاکستان کی طرف سے جنگ کا نہیں امن کا بہترین اظہار تھا۔ مگر بھارت والے آج تک اپنی خباثتوں سے باز نہیں آئے اور ابھی تک شرمندگی کا یہ داغ دھونے کے لیے نت نئی سازشیںکر رہے ہیں۔ مگر ہماری چوکس افواج ان کی ہر جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کے لیے تیار اور ان کے ہر وار کو ناکام بنا رہی ہیں۔
٭٭٭٭
پہلے انصاف ہو گا پھر الیکشن ہونگے۔ مریم نواز
اس سیاسی بیانئے پر سوائے غالب کی طرح اور کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ ”ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئیے“ کیا یہ کسی سیاسی بالغ نظر سیاستدان کا لب و لہجہ ہو سکتا ہے۔ الیکشن کے حوالے سے پورا ملک ایک سیاسی ہیجان میں مبتلا ہے۔ خاص طور پر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی تو اس معاملے میں کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے تو سیاسی اور عدالتی میدان میں عذر برپا کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (نون) کی رہنما مریم نواز جو آج کل شہر شہر ورکرز کنونشن سے خطاب کرتی پھر رہی ہیں ان کو اپنی جماعت کے سخت گیر موقف رکھنے والوں کی حمایت حاصل ہے جنہیں نواز شریف کے فدائین بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے اور کچھ نہ ہو خود ان کے چچا میاں شہباز شریف کی حکومت عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے جو پہلے ہی تلوار کی دھار پر چل رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور یوٹیلٹی بلز اور ٹیکسوں میں اضافے نے بلاشبہ انکی حکومت کو ایک ناکام حکومت بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ (نون) والے پہلے ہی شور کر رہے ہیں کہ اس بار لاڈلے خان کو عدلیہ کے کاندھوں پر بٹھا کر لایا جا رہا ہے تو ان برے اور سخت حالات میں ایسے تیز و تند بیانات کے بعد مریم نواز کا یہ بیانیہ کیا رنگ لائے گا۔ یہ تو صاف الیکشن ملتوی کرنے کی باتیں ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس دشوار راہ میںخدا جانے کتنے کوہ کن اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔ اس لیے تیشے سے پہاڑ کھودنے کی پرخطر اور طویل راہ کی بجائے سیاست کی سیدھی اور صاف راہ اختیار کی جائے اور ملک میں مقررہ وقت پر الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے میں ہی مسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کی عافیت ہے۔ ورنہ خطرہ بڑھ رہا ہے کہ سیاسی اور عدالتی میدانوں میں لڑی جانے والی نفرت کی اس جنگ میں کہیں کسی اور کی کامیابی کا راستہ ہموار نہ ہو جائے۔
٭٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں نے 9 رکنی ڈانسر گروپ اغوا کر لیا
جناب اب کیا کہتے ہیں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں۔ وہ تو بڑے کروفر سے اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ انہوں نے کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کےخلاف آپریشن میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پولیس کو رینجرزکی مدد بھی حاصل تھی۔ ہم نے کچے کے علاقے میں اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ ڈاکوﺅں کی کمین گاہیں مسمار کر دی ہیں۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یا کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا وہ بھی مرا ہوا۔ ڈاکوﺅں کی کچے کے علاقے میں کارروائیاں آج بھی اسی زور و شور سے جاری ہیں۔ اب خدا جانے پولیس نے کونسے قلعے مسمار کیے اور کس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہاں تو الٹا پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے جاری بیانات کے کاغذی قلعے اس ایک خبر نے ہی زمین بوس کر دئیے ہیں۔ گزشتہ دنوں جس طرح کچے میں آباد ڈاکوﺅں نے پولیس اور انتظامیہ کے دعوﺅں کے برعکس اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے 9 رکنی میوزک گروپ کہہ لیں یا ڈانسر گروپ کو اغوا کر لیا، وہ حیرت انگیز ہے۔ اس سے ڈاکوﺅں کی کامیاب پلاننگ اور کچے کے علاقے میں انکے محفوظ ٹھکانوں کا پتہ چلتا ہے۔ اب یہ 9 رکنی میوزیکل گروپ ڈاکوﺅں کے پاس یرغمال ہے جنہوں نے انکی رہائی کے عوض ایک کروڑ روپے سکہ رائج الوقت تاوان طلب کیا ہے۔ اب یہ بے چارے موسیقی کے مارے تو پہلے ہی کمزور دل ہوتے ہیں۔ اگر یہ جفاکش اور محنتی ہوتے تو روزی کمانے کیلئے ڈھول ، گٹار اور ناچنے گانے کاسہارا کیوں لیتے۔ ان کاتو آدھا خون حالت یرغمال میں ہی خشک ہو گیا ہو گا۔ پولیس اب ذرا انکی برآمدگی کا بندوبست کرے ورنہ کہیں ملک بھر کے میوزک والوں نے ہڑتال کر دی تو نہ کوئی شادی مزہ دے گی نہ سیاسی تقریب۔ آج کل میوزک کے بغیر دونوں کا انعقاد ممکن نہیں رہا۔
٭٭٭٭٭
میدانی علاقوں سے سردیاں رخصت، گرمیوں کی آمد کا اعلان
فیض نے موسم بدلنے پر کیا خوب کہا تھا:
موسم بدلا ر±ت گدرائی اِہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
سو لاہور میں گزشتہ رات ہونےوالی بارش کو ہم سردیوں کی آخری اور بہار کی پہلی بارش بھی کہہ سکتے ہیںجس نے پورے شہر پر جمی گردو غبار کی دھول کو دھو ڈالا اور لاہور نکھر نکھر گیا۔ یہ بارش صرف لاہور میں نہیں بلکہ پورے ملک میں کہیں تیز کہیں ہلکی ہوئی۔ ویسے تو ایک دو روز سے موسم کے روئیے میں بدلاﺅ محسوس ہو رہا تھا۔ لوگوں نے گرم کپڑے، سویٹر، جیکٹس وغیرہ ا±تار دئیے تھے۔ پنجاب اور سندھ میں تو پنکھے بھی چلنے لگے تھے۔ ویسے بھی فروری میں میدانی علاقوں میں سورج آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔ ہاں البتہ پہاڑی علاقوں میں ابھی تک سردی جانے میں کم از کم ایک ماہ اور لے گی۔ مارچ کا آج پہلا دن ہے۔ اس ماہ میں پہاڑی علاقوں میں موسم سرما نے آہستہ آہستہ سامان باندھ کر واپسی کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے میدانی علاقوں میں فروری اور پہاڑی علاقوں میں مارچ کا مہینہ بہار کا سندیسہ لاتا ہے۔ سبزہ نمایاں ہوتا ہے۔ درختوں اور پودوں پر بہار کارنگ چھاتا ہے۔ پھولوں کی کلیاں چٹکنے لگتی ہیں۔ یوں زمیں کی گود رنگ سے بھرنے لگتی ہے۔ سردی یوں غائب ہونے لگتی ہے جس طرح ضرورت کے وقت دوست اور رشتہ دار غائب ہو جاتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں یہ موسم بہار بھی اِہل جنوں کے گریباں چاک کرنے کیلئے آتا ہے۔ وسط فروری سے وسط مارچ تک دھوپ اچھی لگتی ہے۔ بس پھر اس کے بعد تو وہی ”ہائے ہائے گرمی اف اف گرمی“ کے نعرے لگتے ہیں۔ تو چلیں چند دن ہی سہی کیوں نہ قدرت کے اس حسین تحفے کی قدر کریں، باغوں میں جا کر چھٹی کے دن گھر والوں کیساتھ کچھ وقت بسر کریں۔ بہار کی اس جانفزا ساعتوں میں کچھ دیر کیلئے ہی سہی اپنے رنج و غم بھلا کر قدرت کی اس خوبصورت فیاضی سے لطف اندوز ہوں۔