حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج(۲)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں، میںنے حضور اکرم ﷺسے حطیم کے بارے میں استفسار کیاکہ کیا وہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے یا نہیں تو آپ نے فرمایا : ہاں۔(وہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے)میںنے عرض کی : کیا وجہ تھی کہ قریش نے اسے بیت اللہ میں شامل نہیں کیا ؟فرمایا :تمہاری قوم کو سرمائے کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا ۔ میںنے عرض کی: خانہ کعبہ کا دروازہ اٹھا ہوا کیوں ہے؟ فرمایا : تمہاری قوم نے ایسا اس لیے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر آنے دیں اورجس کو چاہیں روک دیں۔ اگرتمہاری قوم زمانہ جاہلیت کے قریب نہ ہوتی اورمجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ انکے دلوں پر یہ بات ناگوار گزرے گی تو میں حطیم کو خانہ کعبہ میں شامل کردیتا اوراسکے دروازے کو زمین کے برابر کردیتا (صحیح بخاری )حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی محتشم ﷺسواری پر تھے اورحضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا : اے معاذ بن جبل! انہوںنے عرض کیا : یارسول اللہ (ﷺ )! میں اطاعت اورخدمت کیلئے حاضر ہوں ۔ آپ نے (پھر)فرمایا : اے معاذ! انہوںنے عرض کیا : یارسول اللہ! میں اطاعت اورخدمت کیلئے حاضر ہوں ۔ آپ نے تین بار ان کو خطاب فرمایا ، پھر فرمایا : جوکوئی سچے دل سے یہ شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اورحضرت محمد ﷺاللہ تعالیٰ کے (سچے ) رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کردیتا ہے ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)کیا میں یہ بات لوگوں کو نہ بتاﺅں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ فرمایا:(نہیں )ایسا کرنے سے لوگ اسی (کلمے) پر بھروسہ کرنے لگیں گے (اوراعمال صالحہ سے بے نیاز ہوجائینگے )حضر ت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اپنی موت سے پہلے روایت کردی کہ کہیں اس کو روایت نہ کرنے سے گنہگار قرار نہ پائیں۔(صحیح بخاری) حضرت ابوالعالیہ البراءسے روایت ہے کہ حاکم وقت ابن زیاد نے نماز کو اپنے وقت سے مو¿خر کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن صامت میرے ہاں تشریف لائے ۔ میںنے ان کیلئے کرسی رکھی۔ وہ کرسی پرتشریف فرما ہوئے۔ میںنے انکے سامنے ابن زیاد کی اس حرکت کا ذکر کیا۔ انہوںنے اپنے ہونٹ بھینچے ، میری ران پر ہاتھ مارا اورفرمایا : جس طرح تم نے مجھ سے سوال کیا ہے میں
نے اسی طرح حضرت ابوذر ؓسے سوال کیا تھا۔ انہوںنے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا جس طرح میںنے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اورفرمایا : میںنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا تھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے اورآپ نے اسی طرح میری ران پراپنے دست اقدس سے ضرب لگا ئی تھی،جس طرح میںنے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اورفرمایا تھا: تم نماز کو اسکے (صحیح ) وقت میں اداکرو۔ اوراگر ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجائے تو (دوبارہ )نماز پڑھ لو اوریہ نہ کہو کہ میں پہلے نماز پڑھ چکا ہوں ، اس لیے اب نماز نہیں پڑھوں گا۔(صحیح مسلم)