• news
  • image

بازوﺅں سے محروم بچے نے پاﺅں سے بہترین شاٹس لگا گر دل جیت لئے


عیشہ پیرزادہ 
Eishapirzada1@hotmail.com 
16 ویں صدی عیسوی میں انگلینڈ سے جنم لینے والا کھیل کرکٹ انگریز برصغیر میں اپنی حکمرانی کیساتھ لایا۔ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ کرکٹ برصغیر کا کھیل ہے۔ لیکن اس کی ایجاد اتفاق سے انگریزوں نے کی۔دنیا بھرمیں  مقبولترین یہ کھیل جسے نہ صرف بڑے کھیلتے ہیں بلکہ بچے اس کھیل کے دلدادہ ہیں۔گیند بلے سے کرکٹ کھیلنا بچوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ ہر گلی اور محلے میں اس کھیل کے  ننھے منے منجھے ہوئے کھلاڑی موجود ہیں۔ 
شام کا کو پہر ہو یا چھٹی کا کوئی دن یہ کھیل کا میدان سجا لیتے ہیں اور اگر گراونڈ میسر نہ ہو تو یہ ننھے بچے محلے کی گلیوں کو کرکٹ گراؤنڈ میں بدل لیتے ہیں۔ ان کے پاس صرف گیند اور بلا ہونا ضروری ہے۔ گھر کا لباس ان کا یونیفارم،اینٹیں ان کی وکٹیں اور پڑوس کی درودیوار بائونڈری ہے۔ آج کل تو پی ایس ایل کے میچز بھی ہورہے ہیں،لہذا کرکٹ کے شوقین بچوں میں جوش کئی گنا بڑھ چکا ہے۔  
ہمت، حوصلے، لگن اور کامیابی کی ایک مثال سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ چند سیکنڈ کی ویڈیو میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ویڈیو میں نظر آنے والے بچے نے ثابت کر دیا کہ شوق اور لگن ہو تو کوئی رکاوٹ اسے اپنا شوق پورا کرنے سے روک نہیں سکتی۔اس ویڈیو میں دونوں بازوؤں سے محروم ایک بچے کو بازوؤں کے بجائے اپنی ٹانگ سے بہترین شاٹس کھیل کر گراؤنڈ میں موجود ساتھیوں سے داد وصول کرتے دیکھا جا سکتا ہے.یہ بچہ  اپنی ٹانگوں سے نہ صرف بازوؤں کا کام لے رہا تھا بلکہ انہیں کو اس نے اپنا بلا بھی بنایا ہوا تھا۔
دونوں بازوؤں سے محروم کرکٹ کھیلتے بچے کی وائرل ہونے والی ویڈیو پر جہاں کچھ لوگوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو مخاطب کیا وہیں بچے کی مہارت اور جذبے کو اپنے اپنے انداز میں داد بھی دی۔
ایک سوشل میڈیا صارف  نے وائرل ہونے والی ویڈیو پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے اس ویڈیو میں لڑکے کے دوستوں کا سراہنے کا طریقہ اچھا لگا۔‘
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جسمانی معذور بچوں نے کبھی بھی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں رہنے دیا بلکہ انہوں نے ہمیشہ دنیا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جیا ہے۔ اپنی کمی کے متبادل ان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو خالی جگہ پر کرنے کا کام کرتی ہے۔ان کی حوصلہ افزائی کے ذریعہ انہیں تعلیمی شعبے میں آگے لانے اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔جسمانی معذوری کی نوعیت بینائی، سماعت، گویائی یا کسی جسمانی عضو جیسے ہاتھ یا پاوؤں وغیرہ سے محرومی ہوتی ہے، تو بعض افراد ذہنی طور پر بھی معذور ہوسکتے ہیں۔ معذوری کی وجوہ میں مختلف عوارض، جینیاتی خرابیاں یا دیگر عوامل شامل ہیں، جب کہ کئی افراد حادثات کا شکار ہو کر بھی معذور ہوجاتے ہیں۔2002 ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 2.49فی صد آبادی اسپیشل افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے 7.40فی صد قوّتِ سماعت اور گویائی سے محروم ہیں۔لیکن سماعت اور گویائی سے محروم یہ بچّے، عام بچّوں کی طرح نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لے سکتے ہیں اور کامیابیاں بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان بچّوں کو مخصوص اشاروں کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے اور پھر یہ ان ہی اشاروں کی مدد سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان بچّوں کی تعلیم کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے کئی سرکاری ادارے بنائے گئے ہیں،جہاں انہیں مختلف سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔یہ بچّے بہترین مصوّر اور خطاط بن سکتے ہیں، جب کہ ان میں سے بعض کھیلوں کی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ذہنی طور پہ معذور یا کم زور بچّوں کی اکثریت ڈاوؤن سینڈروم کا شکار ہوتی ہے۔یہ مرض 21 ٹرائیسومی(Trisomy-21)بھی کہلاتا ہے،کیوں کہ ان بچّوں میں کروموسومز کی کْل تعداد46کی بجائے47ہوتی ہے۔ویسے نارمل حالات میں ہر کروموسوم کے دو، دو جوڑے ہوتے ہیں، لیکن اگر 21ویں کروموسوم میں دو کی بجائے تین جوڑے بن جائیں، تو یہی اضافی کروموسوم طبّی اصطلاح میں ’’کروموسوم21‘‘ کہلاتاہے۔ ان بچّوں کا گول مٹول چہرہ،چپٹی ناک،چھوٹا دہانہ، بڑی زبان، ہتھیلی پر صرف ایک لکیر، چھوٹی قدوقامت اور بھاری جسم دیکھتے ہی لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ کروموسومز کی خرابی کا شکار ہیں۔ڈاوؤن سینڈروم بچّے بہت ہی ملن سار اور ہم درد ہوتے ہیں۔ انہیں موسیقی اور رنگوں سے خاصا لگاؤ ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ اپنی موٹی زبان کے باعث عام بول چال کے الفاظ صحیح طور پر ادا نہیں کرپاتے، مگر پھر بھی اپنی تمام باتیں اہلِ خانہ اور دوستوں سے شئیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں اچھا مصوّر بننے کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔
عام طور پر ذہنی و جسمانی معذور بچّوں اور بڑوں کے ساتھ ہمارا رویّہ درست نہیں ہوتا، حالاں کہ یہ معاشرے سے توجّہ، ہم دردی، مدد اور حوصلہ افزائی کے طالب ہوتے ہیں، لہٰذا ہر اعتبار سے صحت مند افراد کا فرض بنتا ہے کہ وہ خصوصی بچّوں اور بڑوں کا ہر ممکن طور پر خیال کریں اور انہیں معاشرے کا ایک اہم اور کارآمد حصّہ بننے میں مدد فراہم کریں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن