• news
  • image

لاہور کی نجی یونیورسٹی میں بالی وڈ ڈے پر تنازعہ

عیشہ پیر زادہ
Eishapirzada1@hotmail.com 

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی جہاں عوام کی تفریح کے لیے مختلف فیسٹیولز کا اہتمام کیا جاتا ہے وہیں تعلیمی اداروں خصوصا کالجز اور یونیورسٹیز میں کلچرل ڈے بھی منعقد کیے جاتے ہیں جس میں طالب علم اپنے اپنے علاقے کی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مثلا جب میں جامعہ پنجاب کی طالبہ تھی تو وہاں کلچرل ڈے کے جو رنگ میں نے دیکھے انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا سکتا۔ جامعہ پنجاب ایسی یونیورسٹی ہے جہاں پاکستان کے تمام شعبوں سے نوجوان پڑھنے کے لیے آتے ہیں ایسے میں کلچرل ڈے پر جب طالب علم اپنے اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کے تمام علاقوں کی ثقافت ایک ہی فریم میں فکس ہو گئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ایسے ایونٹس نوجوانوں کو اپنی ثقافت اور مٹی سے جوڑے رہنے میں مدد دیتی ہے وہیں روزمرہ کی روٹین سے جدا ایسی سرگرمیاں طالب علموں کے اذہان کو تازگی بخشنے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ 
لیکن حال ہی میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں منایا جانے والا دن تنازعہ کا باعث بنا۔دراصل اس یونیورسٹی کے طلبہ نے کیمپس میں ’بالی وْڈ ڈے‘ منایا جہاں لڑکے اور لڑکیاں انڈین فلم انڈسٹری کے مشہور کرداروں کا روپ دھارے اور ان کے ڈائیلاگ بولتے ہوئے نظر آئے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان ویڈیوز میں کوئی فلم ’ہیرا پھیری‘ کا بابو بھیا تو کوئی فلم ’محبتیں‘ کا شاہ رخ خان بنا نظر آیا۔
طلبہ کی جانب سے یہ ویڈیوز اپلوڈ ہونے کے بعد ٹوئٹر اور اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کسی کو طلبہ کا ’بالی وْڈ ڈے‘ منانا بْرا لگا تو کوئی یہ کہتا ہوا نظر آیا کہ لڑکے اور لڑکیوں کو تفریح کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔کسی نے اعتراض کرنے والوں کو جواب دیا کہ جب شادیوں کے تقریبات پر بھارتی فلموں کے گیت پر رقص کیا جاتا ہے تو یونیورسٹی میں انہیں فلموں کا دن منانے پر اعتراض کیوں؟
تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کوایسی صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے جو ان کی ذہنی نشوونما اور تصورات پر مثبت اثرات مرتب کرے۔ 
یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں لالی ووڈ ڈے دور کی بات بالی وڈ ڈے منایا گیا۔ اس پروگرام کے چرچے سرحد پار بھی ہوئے کہ پاکستان کے نوجوان اپنی فلم انڈسٹری کے بجائے ہماری فلموں سے اس قدر متاثر ہیں کہ اس پر باقاعدہ ایک دن منایا۔ کوئی شاہ رخ خان بننے کی کوشش میں تھا تو کوئی مادھوری بنی ہوئی تھی۔
پاکستان کے نجی تعلیمی ادارے جنھوں نے معیاری تعلیم فراہم کرنے کی آڑ میں تعلیم کو کمرشلائز کر رکھا اب طالب علموں کے اذہان کو ایک خاص رخ پر موڑنے کی کوشش میں دن رات مصروف ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور نجی یونیورسٹی کا پرچہ امتحان تنازعہ کا باعث بنا جس نے ہمارے دینی احکامات اور انسانی اقدار کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ جبکہ پشاور کی یونیورسٹی میں طلبہ کے سامنے قا بل اعتراض لباس زیب تن کیے غیر ملکی گلوکار کی پرفارمنس کو بھی گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا۔
پے در پے ہونے والے ان واقعات نے ہمارے نظام تعلیم پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ لاہور کی نجی یونیورسٹی کے بالی وڈ ڈے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت رد عمل آیا۔ ایک صارف نے طلبہ پر تنقید کرتے ہوئے ٹوئٹ پر لکھا کہ لمز یونیورسٹی میں بالی وڈ ڈے منا رہے ہیں جبکہ وہی بالی وڈ سوائے پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک اور پاکستانیوں کو دہشتگرد دکھانے کے علاوہ شاید ہی کچھ اور دکھا رہا ہو۔
 ایک صارف نے لکھا کہ اسی بالی وڈ کے گیت لکھنے والے جاوید اختر آپ کے ملک میں آکر آپ کے سامنے آپ کو دہشتگرد کہہ جاتے ہیں اور آپ ان کے خیالات پر تالیاں بجاتے ہیں، اس شخص کے آگے ہماری ہی فلم انڈسٹری کے گلوکار اور اداکار گٹھنوں کے بل بیٹھ کر گیت گاتے ہیں،تو اسی میں بالی وڈ اور لالی وڈ کے فرق واضح ہو جاتا ہے۔ اب تو طالب علموں کو بھی اسی ڈگر پر چلایا جا رہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک اور صارف نے لکھا کہ  یونیورسٹی انتظامیہ کیا اتنی کند ذہن ہے کہ ان کے پاس پاکستان کو لے کر ڈے منانے کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا؟
بہرحال نجی تعلیمی اداروں کا  متنازعہ پرچہ امتحان ہو یا کوئی غیر نصابی سرگرمی والدین فکر مند ہیں کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو کس طرح کی یونیورسٹی سے منسلک کریں جو انہیں تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ مہذب اور شائستہ مزاج بھی بنائے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

epaper

ای پیپر-دی نیشن