جیل بھرو تحریک کا انجام اور انتخابات کا مسئلہ!!!!!
پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات نوے دنوں میں کرانے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے گذشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، تیرہ صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کے اختلافی نوٹ کے دو صفحات پر مشتمل ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے عدالت عالیہ کے فیصلے سے بحران ختم ہو گا یا نیا بحران پیدا ہو گا اس بارے اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کیونکہ موجودہ حالات میں حکومت انتخابات کروانے کے حق میں نہیں ہے، یہ بحث الگ ہے کہ حکومت ایسا کیوں نہیں چاہتی لیکن ملک کے معاشی حالات،سیلاب سے ہونے والی تباہی اور امن و امان کے حوالے سے بدلتی ہوئی صورتحال اجازت نہیں دیتی کہ اتنی بڑی ایکسر سائز کی جائے، یہاں بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے، مراعات کم ہو رہی ہیں، آمدن کے سنجیدہ قسم کے مسائل ہیں، ڈالرز قابو میں نہیں آ رہا، مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے، غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اقتدار کی جنگ جاری ہے، یاد رکھیں یہ جنگ اقتدار کی ہے، اس میں دور دور تک کہیں بھی پاکستان کا عام آدمی نظر نہیں آتا۔ ان سیاسی جھگڑوں اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ریاستی اداروں کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ وہ دفاعی ادارے ہوں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا پھر انصاف فراہم کرنے والے ادارے ہوں سب پر تنقید ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی غلطیاں بھی اداروں پر ڈال کر خود کو ہر غلطی اور نقصان سے الگ کرنے کی کوششوں میں۔مصروف ہیں۔ جسے اداروں سے مدد ملتی ہے اسے سب اچھا لگنا شروع ہو جاتا یا کسی کے کیس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق بھی ہو تو ایک حلقہ ضرور اسے نشانہ بناتا ہے لیکن آئین و قانون کی آواز بھی صرف اس وقت ہی بلند ہوتی ہے جب اقتدار خطرے میں ہوتا ہے یا کسی بڑے کی آزادی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس کے علاوہ کبھی آئین و قانون کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی حالات ان دنوں بھی ہیں کوئی عدلیہ پر حملہ آور ہے تو کوئی دفاعی اداروں پر تنقید کر رہا ہے کوئی احتساب کے اداروں کے خاتمے کی مہم چلا رہا ہے تو کوئی مذہبی انداز میں لوگوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ اس ساری بھاگ دوڑ میں ملک و قوم کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے جیل بھرو تحریک معطل کرنے اور انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان بھی کیا ہے۔ عمران خان نے الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی پاسداری سپریم کورٹ کی ذمہ داری تھی، سپریم کورٹ نے بہادری سے اپنا کردار نبھایا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا افیصلہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی توثیق ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے جیل بھرو تحریک معطل کرتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
آج عمران خان آئین اور قانون کی بات کر رہے ہیں تو یہی آئین اور قانون انہیں یا ان کے ساتھیوں کو طلب کرتا ہے تو ان کا نقطہ نظر نجانے کیوں بدل جاتا ہے،یہی عمران خان تھے جو کبھی ہر وقت ایک پیج،ایک پیج پر ہونے کا دعوٰی کرتے رہتے تھے،وہ سابق آرمی چیف کو جمہوریت پسند قرار دیتے تھے لیکن آج ان کا نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ اسی طرح وہ الیکشن کمشن جیسے آئینی ادارے کو بھی ہر وقت متناز بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کیا یہ سیاسی ع
رویہ کسی بھی طریقے سے ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ اگر نہیں ہے تو پھر کس کا مفاد ہے کہ آئینی اداروں کو اس حد تک متنازع بنا دیا جائے کہ لوگوں کا بچا کھچا اعتماد بھی ختم ہو جائے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے جیل بھرو تحریک معطل کرنے اور انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کردیا۔ٹوئٹر پر اپنے بیان میں عمران خان نے الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی پاسداری سپریم کورٹ کی ذمہ داری تھی، سپریم کورٹ نے بہادری سے اپنا کردار نبھایا۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نےکہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی توثیق ہے۔عمران خان نے جیل بھرو تحریک معطل کرنے اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابی مہم شروع کرنےکا بھی اعلان کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب آئین اور قانون کو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے استعمال کریں گے اور قانون کی نظر میں سب کو برابر سمجھیں گے۔ یہی عدالتیں اگر عمران خان کے سیاسی مخالف کو ریلیف دیں تو اس فیصلے کو آئین و قانون کا قتل قرار دیا جائے گا لیکن ان میں سے کسی کو سہولت مل جائے تو آئین و قانون کی فتح کا دن قرار دیا جائے گا۔ یہی حالات دیگر سیاسی جماعتوں کا ہے فیصلہ ان کخ سوچ کے مطابق ہو تو ٹھیک ورنہ کسی کو لاڈلہ قرار دیا جائے گا۔ یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے سے عدلیہ میں تقسیم بھی واضح ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اچھی نہیں ہے۔ جب بنچ ٹوٹنے لگیں، اہم کیسز میں اختلافی نوٹس آنے لگیں، از خود نوٹس کے اختیار پر سوالات اٹھنے لگیں، بنچ میں تقسیم ہو تو ایسے واقعات سے عوامی سطح پر اچھا پیغام ہرگز نہیں جاتا۔ چند روز قبل بھی لکھا تھا کہ عدالتوں میں سیاست دانوں کے اتنے کیسز ہیں اور ان کی ان کی کوریج سے احساس پیدا ہوتا ہے کہ شاید سیاستدانوں کے کیسز کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے معاملات ایسے ہیں سیاست دان باہمی مشاورت سے کام کریں، برداشت کا مظاہرہ کریں تو عدالتوں میں جانے کے بجائے مشاورت سے ہی مسائل ہو جائیں لیکن سیاسی قیادت ہمیشہ اپنے مسائل لے کر اداروں کے پاس جاتی ہے اور اس کے بعد پھر جو ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
جہاں تک جیل بھرو تحریک کی معطلی کا معاملہ ہے یہ تو پی ٹی آئی کے دیگر نعروں کی طرح ایک ناکام نعرہ ہی تھا معطلی کا اعلان نہ بھی کیا جاتا تو یہ ایک طرح سے معطل ہی تھی یہ تحریک بری طرح ناکام ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں قیادت کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے۔ یقینا عمران خان اور ان کے ساتھی اس ناکامی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھیں گے۔