• news

پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کے 90 روز کے اندر انتخابات تمام فریقین سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے قبول کریں


چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے تنازعہ پر ازخود اختیار نوٹس اور متعدد دائر کردہ درخواستوں کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر اندر کرانے کا حکم دیا ہے۔ اکثریت رائے سے صادر ہونیوالے اس فیصلے میں فاضل عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخاب کیلئے صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے تاریخ مقرر کرینگے جبکہ خیبر پی کے اسمبلی کے انتخاب کی تاریخ گورنر کے پی کے الیکشن کمیشن کی مشاورت کے ساتھ طے کرینگے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن عام انتخابات سے قبل تحلیل ہونیوالی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر اندر کرانے کے پابند ہیں جبکہ متعلقہ صوبوں کی نگران حکومتیں بھی سکیورٹی سمیت تمام سہولتیں الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ آئین کی دفعہ 112 کے تحت گورنر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر یا خود صوبائی اسمبلی تحلیل کرینگے تو وہ 90 دن کے اندر اندر انتخابات کیلئے تاریخ کا تعین کرینگے اور اگر کوئی صوبائی اسمبلی گورنر خود تحلیل نہ کریں اور آئینی تقاضے کے تحت وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کے 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے تو الیکشن ایکٹ اس صور ت میں صدر اور گورنر کو انتخاب کی تاریخ کے تعین کا اختیار دیتا ہے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ آئین کی دفعہ 222 کے تحت انتخابات کا انعقاد وفاق کا سبجیکٹ ہے اور متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کی عام انتخابات سے قبل تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر اندر انکے انتخابات کرانا حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ بنچ کے دو فاضل ارکان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اس کیس میں اپنے اختلافی نوٹ تحریر کئے اور درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا۔ 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے تبادلہ کیس میں پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے معاملہ میں یہ کیس ازخود نوٹس کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ریفر کیا تھا۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دیا جس میں غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت کرنیوالے دو فاضل ججوں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بھی بنچ کا حصہ بنایا جبکہ اسی دوران جسٹس مظاہر نقوی کے حوالے سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی ایک آڈیو کیسٹ بھی منظرعام پر آگئی چنانچہ وفاقی حکومت اور بعض سیاسی قائدین کی جانب سے ازخود نوٹس کیس کیلئے بنچ کی تشکیل بالخصوص دو فاضل ججوں پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے جبکہ کیس کی سماعت کے آغاز میں بنچ کے دوسرے فاضل ججوں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے بھی اس کیس کی سماعت کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے گئے۔ چنانچہ فاضل چیف جسٹس نے حکومتی تنقید کی زد میں آنیوالے بنچ کے دو فاضل ارکان کے علاوہ اعتراضات اٹھانے والے دو فاضل ججوں کو بھی بنچ سے علیحدہ کر دیا اور باقیماندہ پانچ فاضل ججوں پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ 
بے شک آئین کی دفعہ 224 کا یہی تقاضا ہے کہ عام انتخابات سے قبل تحلیل ہونیوالی کسی اسمبلی کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات ہونے ہیں۔ اس کیس میں بھی فاضل عدالت کے روبرو پیش ہونیوالے تمام فریقین کے وکلاءبھی آئین کی متذکرہ دفعہ کا تقاضا پورا کئے جانے پر متفق تھے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر ہی ہونے ہیں تاہم اس کیس میں اصل سوال یہی تھا کہ صدر مملکت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے آئینی اور قانونی طور پر مجاز ہیں یا نہیں۔ اس معاملہ میں صدر مملکت کے وکیل نے خود تسلیم کیا کہ چونکہ خیبر پی کے اسمبلی خود گورنر نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی تھی اس لئے اس اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا صدر کو آئینی اختیار حاصل نہیں تھا جبکہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے مجاز تھے۔ بے شک اکثریت رائے کے تحت صادر ہونیوالے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کی پابندی اور تمام متعلقہ لوازمات پورے کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور ان اسمبلیوں کے انتخابات بہرصورت 90 دن کے اندر اندر ہونے ہیں تاہم عدالت عظمیٰ کے روبرو اس کیس کے حوالے سے آئینی اور قانونی معاملات و اختیارات پر جو سوالات اٹھے‘ انکی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ متنازعہ ہونے کا احتمال رہے گا۔ عدالتی تاریخ میں ایک مثال بھٹو قتل کیس کی ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے بھٹو کی پھانسی کی سزا کی توثیق کی اور تین فاضل ججوں نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا۔ اسی بنیاد پر یہ عدالت عظمیٰ کا وہ فیصلہ متنازعہ قرار پایا اور عدالتوں میں اس فیصلے کو بطور نظیر پیش نہیں کیا جاتا۔ 
عدالت عظمیٰ کے موجودہ فیصلہ کے حوالے سے تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہے کہ کیس کی سماعت کرنیوالے 9 فاضل ججوں کے بنچ میں سے خود دو فاضل ججوں نے کیس کی سماعت کے دوران ہی اعتراضات اٹھائے اور متعلقہ درخواستیں ناقابل سماعت قرار دیں۔ اگر یہی بنچ برقرار رہتا تو بنچ کے چار فاضل ارکان کے اختلافی نوٹ سامنے آتے۔ اسکے علاوہ جن دو فاضل ججوں کی بنچ میں شمولیت پر حکومت اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ وکلاءکی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے‘ وہ بھی بدستور بنچ کا حصہ ہوتے تو انصاف کی عملداری سے متعلق معاملہ مزید خراب ہوجاتا۔ یہ فیصلہ درحقیقت 9 رکنی بنچ کے تین فاضل ارکان کا ہے اس لئے چاہے یہ فیصلہ نافذالعمل بھی ہو جائے تو بھی یہ عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں میں ہی شامل ہوگا۔ اس فیصلہ کے حوالے سے صدر مملکت کے متنازعہ کردار پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوئی ہے کہ انکے وکیل نے خود پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے معاملہ میں صدر مملکت کی جانب سے آئین سے متجاوز ہونا تسلیم کیا۔ چنانچہ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ اگر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے صدر کی متعین کردہ تاریخ کو انتخاب کرانا ممکن نہیں تو گورنر الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 90 دن کے اندر کوئی نئی تاریخ مقرر کردیں۔ اس طرح بادی النظر میں صدر مملکت کیخلاف آئین سے انحراف کی کارروائی کا راستہ کھل گیا ہے۔ 
اب چونکہ 90 دن کے اندر اندر متعلقہ صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب طے ہو چکا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالے سے کوئی نیا عذر نکالنے سے گریز کرے اور انتخابات کی تاریخ کا تعین کرکے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی جائیں۔ سیاسی قیادتوں کو بھی اب کھلے دل سے کام لینا چاہیے اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قبول کرکے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دینا چاہیے۔ اگر سیاسی کشیدگی اور انتشار بڑھانے کی کوشش کی گئی تو یہ صورتحال سسٹم ہی نہیں‘ ملک کی سلامتی کیلئے بھی انتہائی سنگین ثابت ہوسکتی ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن